مزید خبریں

کم سے کم اجر ت کا اطلاق اور اس کی ذمہ داری

٭حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے تما م قانونی تقاضہ پورا کرتے ہوئے کم سے کم اجرت کا نوٹیفیکیشن دوبارہ جاری کردیا۔ کم سے کم اجرت کا اطلاق ہر ادارے پے ہوگا۔ اس میں ورکرز کی تعداد کا تعین نہیں ہے اگر کسی ادارے میں ایک ورکر بھی کام کرتا ہے تو وہ کم سے کم اجرت 25ہزار لینے کا حقدار ہے ۔ ٭لیکن سندھ میں افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ پیٹرول پمپ، سیکورٹی گارڈز، دکانوں،ہوٹلز ، ورکشاپ اور اسکول او ر ایسے اسپتال جو کمرشل بنیادوں پر کام کرتے ہیں پر اطلاق ہوگا لیکن کم سے کم اجرت کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر خواتین اسکول ٹیچر تین ہزار سے پانچ ہزار تک ماہانہ اجرت پر معاشی مجبوری کی حالت میں کام کرتی ہیں۔ جب کہ ایسے تمام انگلش اسکول اور کالج جہاں پر ہزار وں روپے ماہانہ فیس طالب علموں سے لی جاتی ہے وہاں پر بھی اساتذہ کو ملازمین کو نائب قاصد اور گارڈز کو 25ہزار روپے کم سے کم اجرت ادا نہیں کی جاتی۔ جب کہ پیٹرول پمپ پر کام کرنے والے ملازمین 12گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور 12ہزار سے 16 ہزار تک کی انہیں تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جتنے بڑے مارٹ سندھ میں قائم ہیں وہاں پر کام کرنے والے ورکرز خصوصاً سیکورٹی گارڈ 12گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں لیکن کم سے کم اجرت 25ہزار سے محروم ہیں۔ سیکورٹی گارڈز کی یہ حالت ہے کہ 12گھنٹے کھڑے ہو کر ڈیوٹی انجام دیتے ہیں لیکن انہیں 12ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ بے روزگاری اور مجبوری کے عالم میں یہ 12ہزار روپے پر ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح سے دکانوں پر کام کرنے والے اور فرنیچر کے کارخانوں میں کام کرنے والے ورکرز کم سے کم اجرت سے محروم ہیں ۔
٭25ہزار کم سے کم اجرت سندھ کے بڑے صنعتی اداروں میں بھی ادا نہیں کیے جا رہے ہیں اور تمام ایسے الائونسس جو کنڈیشنل ادا کیے جاتے ہیں کو کم سے کم اجرت میں شامل کیا جا رہا ہے جب کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ۔٭کئی سال پہلے سابق صوبائی وزیر شعیب بخاری کی ہدایت پر اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر محمد عرس سومرو جو کہ اچھے افسر تھے نے پورے سندھ میں دورہ کر کے ایک رپورٹ مرتب کی تھی کہ سندھ میں کتنے ورکشاپ ہیں اس کی تفصیلی رپور ٹ بھی ریکارڈ پر موجود ہے ۔ ٭کم سے کم اجرت کا اطلاق 25ہزار روپے حکومت سندھ نے اعلان تو کردیا لیکن اس کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے یہ کس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ جو پورے سندھ میں قائم ہیں اور سینکڑوں افراد اس میں ملازم ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل، ایڈیشنل ڈائریکٹر لیبر، جوائنٹ ڈائریکٹر لیبر، لیبر آفیسر،شاپ انسپکٹر اور دیگر عملے پورے سندھ میں موجود ہیں لیکن کم سے کم اجرت کے اطلاق کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہر ضلع کی لیبر ڈیپارٹمنٹ پر یہ ذمہ داری عائد کردی جائے کہ وہ 15دن کے اندر تمام اداروں کی سروے مکمل کرے اور کم سے کم اجرت کے اطلاق کی رپورٹ دیں اور اگر اس پر اطلاق نہیں کیا جا رہا تو ان اداروں کو شو کاز نوٹس دے کر ان کا چالان متعلقہ لیبر کورٹ میں داخل کیا جائے اس سلسلے میں معزز لیبر کورٹ نمبر6حیدرآباد کے پریذائڈنگ آفیسر نے بڑے اہم اقدامات کیے ہیں جرمانہ بھی عائد کئے ہیں اور ذمہ دار افراد کو جیل بھی بھیجا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ لیبر کورٹ نے ایسا اقدا م کیا ہے جب کے محترم لیبر کورٹ نمبر6کے پریزائڈنگ آفیسر صاحب نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے متعلقہ افراد کی میٹنگ بھی طلب کی اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ موثر طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دیں اور جہاں لیبر قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اس کے چالان فوری طور پر داخل کریں لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اب لیبر ڈیپارٹمنٹ سست روی کا شکار ہے نہ انسپکشن کیا جاتا ہے اور نہ ہی لیبر کورٹ میں چالان پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا نوٹس لینا ضروری ہے ۔٭جہاں پر ٹریڈ یونین قائم ہیں وہاں پر اگر کم سے کم اجرت 25ہزار روپے کا اطلاق نہیں ہو رہا ہے تو وہ فوری طور پر لیبر ڈیپارٹمنٹ کو تحریری شکایت داخل کرے اور یہ کرنا چاہیے میں آخر میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی توجہ اس جانب مبذول کروارہا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور کم سے کم اجرت 25ہزار روپے کا بلا تفریق پورے سندھ میں اطلاق کروایا جائے۔