مزید خبریں

تشخص پاکستان

(شہید پاکستان حکیم محمد سعید)
تشخص کی تلاش اور خودی کی جستجو، دراصل وجود و بقا کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے، اگر کوئی شے موجود ہے تو اس کے وجود کا تعارف اس کے ممیزات ہی کی بناء پر ممکن ہے۔ اس کلیے کا اطلاق صرف اشیائے کائنات ہی نہیں بلکہ اقوام و امّم پر بھی ہوتا ہے اور شہر و ممالک پر بھی۔
آج جغرافیہ عالم میں ایک نہیں ہزار ممالک ہیں اور انہی میں ہمارا یہ ملک پاکستان بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا تشخص کیا ہے؟ اس کا صحیح جواب اس بات پر موقوف ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ساکنان پاکستان کا تشخص کیا ہے؟ اس لیے کہ کسی خطہ ٔ ارض کے مادی تشخص اور اس میں بسنے والی قوم کے تشخص میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ شہر و قریہ کے تشخص کا انحصار مخصوص طبیعی حالات پر ہے اور اقوام کے تشخص کا دارومدار فکروعمل اور طرزِحیات پر ہے۔ تاریخ میں تشخص کا جو تصور بھی ملتا ہے ہمیں اس سے بحث نہیں۔ قرآن نے ہمیں یہی تصور بخشا ہے کہ قوموں کا تشخص فکر و عقیدہ ہی پر موقوف ہے۔ ارشاد ہوا :
ترجمہ : ’’پھر تم میں سے کوئی کافر ہے کوئی مومن‘‘
اور ظاہر ہے کہ کفروایمان دو الگ الگ طرزِ فکر اور طرزِ عمل کے نام ہیں۔ انہی میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستگی دوسرے گروہ کو اس سے ممیز کر کے ایک علیحدہ اور جداگانہ قوام بنا دیتی ہے۔ اس جداگانہ قومیت کے تصور کے واضح خط و خال ہمیں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اس تقریر میں ملتے ہیں جو انہوں نے بخاشی کے دربار میں کی۔ جس میں انہوں نے اپنے افکار و اعمال کی بناء پر عربی اور قریشی ہوتے ہوئے اپنے برادران وطن سے اپنے کارواں کو ممیز اور علیحدہ قرار دیا اور اسی تشخص کا اعلان حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی اس تقریر میں بھی ملتا ہے جو انہوں نے قیصر روم کے دربار میں کی تھی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ان کو تشخص کا احساس دین کے حوالے سے ہوا۔ رنگ و نسل، کون و لسان اور خطہ ٔ ارض کے رشتے سے اپنا حقیقی و امتیازی تعارف ممکن نہ ہو سکا۔ یہی مسلم قومیت کی خشت اول تھی جو دین کے حوالے سے رکھی گئی، جس میں نسبتی، لسانی اور جغرافیائی رشتے کی اہمیت سے انکار کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کو علیحدہ قومیت کی تشکیل و تنظیم کا جواز قرار دیا گیا تھا۔ اس قومی تشکیل کا عمل ہجرت نبوی ؐ کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس قومیت کے عناصر ترکیبی میں ’’مٹی‘‘ کے ساتھ وفاداری کو کوئی دخل نہیں بلکہ نظریہ، عقیدہ، دین اور دامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستگی سے یہ وجود میں آتی ہے اور عملی دنیا میں اسی کا اظہار، ایسی قومیت رکھنے والوں کا شعار اور تشخص بنتا ہے۔
یہ قوم زمینی شناخت کے بجائے فکری اور عملی امتیاز و شناخت کی حامل ہوتی ہے ا س لیے یہ ملکوں اور قوموں کے ہجوم میں گم نہیں ہوتی بلکہ اپنا علیحدہ وجود اور اپنی تہذیبی و ثقافتی روایات کی انفرادیت برقرار رکھنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں جب اسلام کا کارواں پہنچا تو وہاں مختلف مذہب و ملت کے لوگ موجود تھے لیکن سب کا تشخص ایک قومی دھارے میں گم ہو کر رہ گیا تھا اور ہندوئوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ مسلمان بھی اپنا شعار اور اپنی شناخت چھوڑ کر ہمارے ہی کل کا ایک جزو بن کر رہ جائیں گے لیکن انہوں نے متحدہ قومیت کے تصور کو رد کر کے اپنی جداگانہ قومیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے تشخص کو مستحکم کرنے کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کر دیا۔
نظری اور دینی بنیاد پر جداگانہ مملکت کی تعمیر ایک انقلاب انگیز چیز تھی مگر مسلمانوں کے لیے تجربہ نیا نہیں تھا، مدینہ کی اولین اسلامی ریاست ان کے لیے مشعلِ راہ تھی۔ چنانچہ ایک بے مثال قربانی اور طویل جدوجہد کے بعد مسلم قومیت اور تشخص کے نظریہ کو فتح حاصل ہوکر رہی۔ مملکت پاکستان وجود میں آئی اور مسلمانوں کو ایسی آزادی نصیب ہوئی کہ وہ اس مملکت میں اسلامی احکام پر مبنی نظام حیات کی شکیل کر کے عالمی سطح پر اپنے عمل و کردار کے ذریعہ اپنے تشخص یعنی دین سے اپنی وابستگی کو نمایاں کر سکیں اور سرزمینِ پاکستان نظامِ عدل و حق کا مرکز بن کر اہلِ عالم کی نگاہوں کو اپنی طرف ملتفت کر سکے نیز تشخص اور شناخت کے دعوے کا علمی ثبوت دیکھ سکے۔ اس خطۂ ارض کی یافت نظریہ کی فتح کی صورت میں ہوئی ہے۔ اس لیے اس کی بقا بھی اسی سے منسلک ہے۔ میرا مدعا یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے برعکس اس ملک کی آزادی اور بقا کے لیے عسکری سازوسامان سے زیادہ نظری اور فکری استحکام ضروری ہے اور قومیت کے ارضی اور جغرافیائی عفریت کو اتنی گہرائی میں دفن کر نا ہے کہ وہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکے۔
ہم آج اپنی قومی زندگی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں اس مملکت کے افق پر مہیب سائے منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ زمینی اور لسانی قومیت کے جن بتوں کو ہم نے پاش پاس کر کے دینی شناخت و تشخص کی جس بنیاد پر یہ آزادی حاصل کی تھی اس میں تزلزل پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ کل تک جو چیز بحث و تمحیص سے بالاتر تھی اب وہ متنازعہ بنتی جا رہی ہے جو تصور عقیدہ راسخ کی حیثیت رکھتا تھا یعنی نظریہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کا دین کے حوالے سے تشخص، آج اس پر بحث کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔نظریہ کی یہ فتح ہماری سب سے بڑی فتح تھی مگر ہم شکست خوردہ قوموں کی طرح پشیماں نظر آتے ہیں۔ ہمیں یہ آزادی جتنی عزیز ہونی چاہیے اور اس کی جو قدر و قیمت ہمارے دلوں میں ہونی چاہیے وہ اب شاید باقی نہیں ہے۔ غالباً اس لیے کہ ہماری نگاہیں ہمارے مقصد اعلیٰ پر مرکوز نہیں ہیں اور وہ ہے دین کا نفاذ ، جو ہمارے تشخص کا ذریعہ بھی اور ہمارے اسلامی عمل و کردار کی ایک ممتاز جولاں گاہ بھی، لیکن یہ سارے تقاضے اس وقت پورے ہوں گے جب ہمیں اسلام سے دلی تعلق ہو، اسلام اور نظام اسلام ہی سے محبت، پاکستان سے ہماری محبت کا صحیح اور تعمیری رخ متعین کر سکتی ہے، اس کی آزادی کی حفاظت کر سکتی ہے، اس کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کو ایک مسلک میں منسلک کر سکتی ہے۔ یہ وطن قومیتوں کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوا بلکہ اسلامی تشخص کی بناء پر حاصل ہوا ہے اور اس تشخص کے قیام کے لیے ہمیں کسی تاخیر کے بغیر اسلامی نظام کا مکمل نفاذ کر دینا چاہیے تاکہ ہر طرح کی ناانصافیاں ختم ہو سکیں اور کسی کو گمراہ کن نعرے لگانے کا موقع نہ ملے۔