مزید خبریں

پاکستان کے 75سال ،کیا کھویا کیا پایا۔؟

پاکستان کے قیام کے مقاصد بہت واضح اور روز روشن کی طرح عیاں تھے جن کی بنیاد پر تحریک پاکستان اٹھائی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی ۔ہندوستان کے مسلمان اس تحریک میں جوق درجوق شامل ہوگئے اورقیام پاکستان کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد اور عزم مصمم کرلیا جس کی اصل وجہ وہ نعرہ تھا جو پاکستان بنانے کا اصل محرک تھا کہ ــ’’پاکستان کا مطلب کیا ۔لا الہ الا اللہ ‘‘یہی وہ نعرہ تھا جو تحریک پاکستان کے وقت پورے ہندوستان میں گونجتا رہا اور جس نے ہر کلمہ گو کو اس تحریک کی کامیابی کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے پر آمادہ وتیار کردیا ۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس میں مائوں بہنوں اور بیٹیوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوئیں ،معصوم اور شیر خوار بچوں کو ان کی مائوں سے چھین کر نیزوں پر اچھا لا اور برچھیوں میں پرویا گیا ۔اپنا سب کچھ پاکستان کی خاطر قربان کرکے لاکھوں کی تعداد میں پاکستان پہنچنے والوں کو آگ اور خون کا دریا عبور کرنا پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی فریادیں سن لیں اور انہیں رمضان المبارک کی27ویں رات کو وہ عظیم الشان پاکستان عطا فرما دیا جو کرۂ ارض پر مدینہ کی ریاست کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بھی تھا ،لیکن قیام پاکستان کے بعد ملک کے اقتدار پرقابض ہونے والوں نے سارے خواب چکناچور کر دیئے ۔ان کالے انگریزوں نے اپنے آقائوں کا دیا ہوا وہی نظام پاکستان پر مسلط کردیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کا نذرانہ دے کرپاکستان حاصل کیا تھا ۔ سب سے پہلی مشکل جس کا ملک و قوم کو سامنا کرنا پڑا وہ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کا سانحہ تھا ۔قائد اعظم ؒ قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے جبکہ پاکستان کو ابھی ان کی بڑی ضرورت تھی ۔
لیکن آج جب ہم 75سال پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں توامیدوں اور آرزوئوں کا خون ہے اور سوائے دکھ اور افسو س سے ہاتھ ملنے کے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ قومی تاریخ کے 75سالوں میں سے تقریبا آدھا عرصہ 35سال ملک پر مارشل لاء نافذ رہا ۔7 اکتوبر 1958 کوصدر پاکستان سکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا ابھی آزادی کو صرف دس سال ہی گزرے تھے کہ ملک کو امریکی غلامی میں دے دیا گیا۔جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا ۔پہلے مارشل لاء میں 56کا آئین معطل ہوا۔ 25 مارچ 1969ء کو پاکستان میں دوسرا مارشل لاء لگایا گیا۔ آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے جنرل محمد ایوب خان کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔ 1962ء کا آئین منسوخ کردیا گیا ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور ہرقسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ دوسرے مارشل لاء کے نتیجے میں ہی دراصل پاکستان دولخت ہوا جب 1970ء کے انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان میںدو علاقائی جماعتوں کو اکثریت دلا کر فیڈریشن کواتنا کمزور کردیا گیا کہ 16دسمبر 71ء میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور قیام پاکستان کے محض 24سال بعد ہی لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کیا گیا ملک علاقائی اور لسانی تعصبات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تیسرا مارشل لاء جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں لگایا۔اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا مگر چند نمائشی اقدامات کے سوا 73ء کے آئین میں دیئے گئے۔ قرآن و سنت کے احکامات کے اجراء کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔چوتھا مارشل لاء جنرل مشرف نے 1999 ء میں لگایا۔انہوں نے ملک میں حقیقی احتساب کے وعدے اور دعوے کئے مگر عملاً کچھ نہ کرسکے ۔ پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کئے اور افغانستان میں امریکی مقاصد کی تکمیل کیلئے اسٹریٹجک پارٹنربنے رہے ۔ ملک کو سو ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی اور 70ہزارشہریوں کی قیمتی جانوں کا نقصان پہنچایا ۔مشرف نے ہی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھ بیچا ۔
یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں کوئی ایک بھی الیکشن ایسا نہیں تھا جس پر انگلیاں نہ اٹھی ہوں اور دھاندلی ،جھرلواور سلیکٹڈ جیسے الزامات نہ لگے ہوں ۔دولت کے بل بوتے پر پولنگ اسٹیشن خریدنے اور من پسند افراد کو لانے کے بھی شواہد ملتے رہے ۔اقتدار میں آنے والی پارٹیاں مقتدر حلقوں کی سرپرستی حاصل ہونے کے سرعام دعوے کرتی رہیں۔ہر پاکستانی اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ حکمران رہنے والی پارٹیاں فوجی گملوں میں پروان چڑھیں ،کسی نے جنرل ایوب خان کو تو کسی نے جنرل ضیاء الحق اور کسی نے جنرل مشرف کو اپنا سرپرست تسلیم کیا ، جنرل پاشا کی آشیر باد سے نیا پاکستان بنانے کی بات کرنے والوں سے بھی سب آگاہ ہیں ۔اس حقیقت کو جھٹلانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ برسر اقتدار رہنے والی پارٹیوںکو ہمیشہ الیکٹیبلز کی فوج ظفر موج سے کمک پہنچائی گئی ،جس پارٹی کو بھی اقتدار سونپنا مقصود ہوتا ہے اس کے ساتھ الیکٹ ایبلز جوڑ دیئے جاتے ہیں اور جس کو اقتدار سے نکالنا ہوتا ہے اس سے الیکٹ ایبلز کو توڑلیا جاتا ہے ،ان الیکٹ ایبلز میں بھی اکثریت انہی خاندانوں کی ہے جنہوں نے تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کیلئے انگریز سرکار کا ساتھ دیا تھا ۔یہی کھیل پون صدی سے جاری ہے ۔سولین حکومت اورجمہوریت کے نام پرجن لوگوں کو لایا جاتا رہا، وہ عوامی پذیرائی سے لیڈر نہیں بنے تھے بلکہ جرنیلوں کی گود میں پلنے اور ان کے ہاتھوں سے فیڈر پینے والے وہ لوگ تھے جنہیں مصنوعی مقبولیت سے لیڈر بنایا گیا ،یہی وجہ تھی کہ عوامی حمایت حاصل ہونے اور مقبولیت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والوں کو جب اقتدار سے نکالا گیا توان کے گھر والوں کے سوا کوئی ماتم کرنے والانہیں تھا اورنہ انہیں کوئی کندھا نصیب ہوا جس پر سر رکھ کر وہ روسکتے ۔پیپلز پارٹی سندھ میں گزشتہ 35سال سے اقتدار میں ہے اور وفاق میں بھی تین بار حکومت میں رہی ،اسی طرح مسلم لیگ کو چوتھی بار وفاق میں اور چوتھی بار ہی پنجاب میں حکومت کا موقع ملاہے ۔ لیکن ملک کے حالات پہلے سے بھی ابتر ہیں اور عام آدمی کھانے کے ایک ایک لقمہ کو ترس رہا ہے ۔ پاکستان کے نظریے اور جغرافیے کے ساتھ بدترین کھلواڑ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ملک و ملت کو بے شمار نعمتوں ،رحمتوں اور احسانات سے نوازا۔کرۂ ارض کے بہترین موسم ،زرخیز زمین ،ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے دریا ،گہرے پانیوں کے سمندر اور سب سے بڑھ کر جفاکش اور محنتی عوام ،یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مہربانیوں ہی کا نتیجہ ہے جس پر ہم اس ذات کبریا کا جتنا بھی شکر بجا لائیں کم ہے۔اللہ تعالی نے ہمیں مسلمانوں کی پہلی ایٹمی قوت بنایا ،بے بہا قدرتی وسائل ،کوئلے ،تانبے اور سونے کے ذخائر عطاکئے مگر نالائق ،نااہل اور بدقماش حکمرانوں نے اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے ان سے ملک و ملت کی قسمت سنوارنے اور خود انحصاری کا با عزت اور باوقار راستہ اختیار کرنے کی بجائے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور کشکول پکڑنے کی ذلت کا راستہ اپنایا۔ہماری آزادی کوامریکہ اور عالمی سامراجی قوتوں ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے صیہونی مالیاتی اداروں کے ہاتھ گروی رکھا اور دنیا بھر میں پاکستان کی عزت و وقار کو نیلام کیا۔ان حکمرانوں کی وجہ سے آج ہر پاکستانی دولاکھ پینتیس ہزار روپے کا مقروض جبکہ اس غریب قوم کا خون چوسنے والوں کے نہ صرف پاکستان کے ہر بڑے شہر میں بلکہ امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،کینڈا اوردوبئی میں عالی شان محلات ہیں،ان کی اولادیں،جائیدادیں اور کاروبار پاکستان سے باہر ہیں۔ یہ صرف حکمرانی کا لطف اٹھانے اور اقتدار کا نشہ پورا کرنے پاکستان آتے ہیں۔ وکی لیکس ،پانامہ لیکس ،پینڈورا پیپرز سب ان کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے 500ارب ڈالر زکی خطیررقم لوٹ کر بیرونی بنکوں میں منتقل کی گئی ہے جس میں سے 200ارب ڈالر کا تو سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی پارلیمنٹ کے سامنے اعتراف کیا تھا۔اگر پاکستان سے لوٹی گئی یہ رقم قومی خزانے میں آجائے تو ہماری ساری پریشانیاں اور مشکلات ختم اور تمام دلدر دور ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مگربدقسمتی سے ایک دن کیلئے اسلامی نظام کو نہیں آزمایا گیا،نظریہ پاکستان سے غداری اور بے وفائی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج تک ملک عدم استحکام سے دوچار اور بدامنی اور مایوسی کے گہرے بادلوں کے گھیرے میں ہے ۔ایک انتشار اور افراتفری ہے اور ملک کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے ۔ فوجی آمریت اور مغربی جمہوریت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اللہ سے اجتماعی توبہ و استغفار کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کیلئے اللہ کے فرمانبردار بندے بن کر اس کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کیلئے ملک میں شریعت کے نظام کو نافذ کردیں ۔ انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ آج تک ملک کے آئین اور دستور میں دی گئی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔آئین کا تقاضا ہے کہ سودی نظام معیشت کو ختم کرکے زکوٰۃ اور عشر کا پاکیزہ معاشی نظام نافذ کیا جائے ،وفاقی شرعی عدالت نے 1990ء اور پھر 2022 ء میں سودی نظام کے خلاف فیصلے دیئے مگر ان فیصلوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔حکومت نے سود ی نظام کو مسلط رکھنے کیلئے پہلے نواز شریف اور اب شہباز شریف حکومت نے اپیل کی ہے ۔اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ کا نتیجہ ہے کہ ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا ہے ۔حکمرانوں کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ اللہ سے جنگ جیت سکتے ہیں ،جب تک وہ اس خود فریبی میں مبتلا رہیں گے تباہی و بربادی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔
آج اگر 75 سال بعد بھی پاکستان کی حالت نہیں بدلی اور عالمی برادری میں ہمارا کوئی عزت و وقار اور وزن نہیںتو اس کامجرم انگریز کا پروردہ وہ طبقہ ہے جس نے قوم سے غداری اور انگریز سے وفاداری کے صلے میں بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں ،قیام پاکستان کے بعد انہوں نے قومی بنکوں کو لوٹ کر سارا سرمایہ اپنے کھاتو ں میں منتقل کیا ،قومی اداروں کو یرغمال بنایا فوج عدلیہ اور بیورو کریسی میں اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوکر بیٹھ گئے ۔آج بھی اسی اشرافیہ کے چشم و چراغ اسمبلیوں میں نظرآتے ہیں ،ان کا رہنا سہنا ،تہذیب و تمدن اور اٹھنا بیٹھناہم سے بالکل مختلف ہے ،ان کے بچے ہمارے سکولوں میں نہیں پڑھتے ،ان کو دانت کی تکلیف بھی ہوتو علاج پاکستانی ہسپتالوں سے نہیں کرواتے ،یہ اپنی چھٹیاں یورپ اور فرانس کے صحت افزاء مقامات پر گزارتے ہیں ،شاپنگ لندن ،نیویارک اور پیرس سے کرتے ہیں ،یہ برگر فیملیاں پاکستان کے عوام کے مسائل سے کلی طور پر بے خبر اور ناآشنا ہیں ،طالب علموں ،مزدوروں ،کسانوں کی پریشانیاں ان کو پریشان نہیں کرتیں ۔مزدور اور محنت کش کے مسائل وہی
سمجھ سکتا ہے جس نے خود مزدوری کی ہو ،جسے خود کھیتوں میں ہل چلانے اور فصلیں بونے کے عمل سے گزرنا پڑا ہو اور جس نے خود غربت اور کسمپرسی کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہو۔یہ سیاسی پنڈت اور اشرافیہ پاکستان کے عوام کو شودروں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیا ر نہیں ،عوام کا کام ٹیکس دینا ،بجلی و گیس کے بل ادا کرنا اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانا رہ گیا ہے ۔یہ طبقہ اشرافیہ پانچ سال بعد عوام کا ہمدرد اور غمگسار ہونے کی ڈرامہ بازی کرکے ان کے کندھوں پر سوار ہوکر آوے آوے اور جاوے جاوے کے نعروں میں دوبارہ عوام کی گردنوں پر سوار ہوجاتا ہے اور عوام پھر اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کوہلو کے بیل کی طرح غربت اور پریشانی کے اسی دائرے میں چکر لگاتے رہتے ہیں ۔اس طبقہ اشرافیہ کی زندگی اسی میں ہے کہ عوام ان کے غلام رہیں ،یہ اپنے اس خاص دائرے میں کسی غریب کو داخل نہیں ہونے دیتے ،اسی لئے غریب پرایوان اقتدارکے دروازے بند ہیں ۔ان حالات کو تبدیل کرنے کیلئے ایک بار پھر قوم کو تحریک پاکستان کے جذبہ سے اٹھنا ہوگا اور اقتدار کے پجاری حکمرانوں سے اختیارات چھین کر اپنے جیسے لوگوں کے حوالے کرنا ہونگے ۔قوم جماعت اسلامی پر اعتماد کرے ،ان شا اللہ جماعت اسلامی انہیں مایوس نہیں کرے گی ۔