مزید خبریں

مسلمانوں کی حالتِ زار

مسلمانوں کا اصل مسئلہ زبوں حالی اور پستی ہے۔ اس کے مختلف اسباب میں اختلاف وانتشار بھی ایک سبب ہے۔ مسلمانوں کے اندر جب تک اس کا شعور پیدا نہیں ہوگا، اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ یہ شعور ذلت وپستی کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور اختلاف وانتشار کے بارے میں بھی اور انفرادی بھی ہونا چاہیے اور اجتماعی بھی۔ کئی بار انفرادی طورپر علما اور و دانش وروں کی طرف سے اس کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر اکثریت امت لاشعوری اور غفلت میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت میں بیداری کہاں سے پیدا ہوگی۔ اس سے آگے کا سوال ہے کہ آخر یہ شعور کیسے پیدا ہوگا اور کیسے بیداری آئے؟ اس سلسلے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروپ یا ان کے ہر مسلک کے لوگ اجتماعی مشکل میں جس طرح دیگر معاملات میں طے کرنے کے لیے خصوصی مہمات چلاتے ہیں اور لوگوں کو ان سے واقف کراتے ہیں، ایسی مہمات اس مسئلے پر بھی چلائیں اور دوسری ضمنی اور جزوی چیزوں کو نظراندازکرکے اس کو ایک ملی و قومی مسئلہ بنائیں کہ مسلمان اپنے دین اور اس کے مطالبات کے تعلق سے بیدار ہوجائیں اور مسالک کو ان کی جگہ پر رکھیں اور اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرو جائیں یہ وقت کی آواز ہے اور اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
اسلام میں اجتماعیت کا واضح تصور موجود ہے اور اس پر کافی زور دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ سفر کی حالت میں بھی اجتماعیت کے اصولوں کو باقی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر تین لوگ سفر کررہے ہوں تو ان میں سے ایک امیر سفر بن جائے اور باقی دو اس کے مامور ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ آج امت میں اجتماعیت مفقود ہے۔ امارت کا ادارہ ختم ہو چکا ہے۔ پورا پورا شہر بے امیر کے ہے، حالاں کہ ہر محلے اور ہر آبادی کا ایک امیر ہونا چاہیے تھا جو مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کرتا، مگر فی الوقت مسلمانوں کی نفسیات یہ بن گئی ہے کہ وہ دوسرے کی قیادت و سیادت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
آج دنیا میں جو قومیں ترقی کررہی ہیں وہ علوم و فنون سے مالامال ہیں۔ حصول علم کے لیے جدوجہد بہت ضروری ہے۔ قرآن وحدیث میںحصول علم کی کافی تاکید کی گئی ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے یہاں تعلیم کی شرح کافی نیچے جارہی ہے۔ اسباب جو بھی ہوں مگر تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ان کو بڑے پیمانے پر تعلیم کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ وسائل و ذرائع کی قلت کے باوجود اگر عزم ہوتو کامیابیاں بھی ملتی ہیں۔
تعلیم سے مراد صرف دنیوی وعصری تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ متعدد مسلمان بچے عصری تعلیم میں آگے نکل گئے مگر دین کے تعلق سے پھسڈی رہے۔ دنیوی تعلیم اشیا کی معرفت کا نام ہے اور دینی تعلیم سے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو اپنے خالق ومالک اور خدا کی پہچان نہ ہو تو ساری ترقیاں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ معرفت رب سے بے گانہ ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ ممالک نفسیاتی اور معاشرتی طورپر سخت اضطراب کا شکار ہیں اور وہاں جرائم اور خودکشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔
مسلمانوںکے لیے ذلت و پستی سے نکلنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک نفسیاتی اور ذہنی ترقی بھی ہے۔ عزم و حوصلہ ترقی کی بنیادی کلید ہے۔ اسی طرح سخاوت و فیاضی اعلیٰ اخلاقی صفات ہیں۔ بزدلی اور کم حوصلگی سے تنزّل آتا ہے اور خود غرضی اور مفاد پرستی سے نفس کی وفات ظاہر ہوتی ہے۔ فی الوقت مسلمان انھی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قوت برداشت کی کمی بھی ہے۔ اس کا مظاہرہ مختلف سطحوں پر ہوتا ہے۔ انفرادی، گھریلو، خاندانی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں مسلمان قوتِ برداشت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑوں اور تنازعوں کا انبار ہے۔ ان چیزوں سے سب سے پہلے ذہنی سکون غارت ہوتا ہے پھر مال ووقت کاضیاع ہوتا ہے۔ اگر مقدمے بازی کی نوبت آجائے تو پھر جو حالت ہوتی ہے وہ قابل افسوس ہی کہی جاسکتی ہے۔ مگر مسلمان ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایسی باتوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں جو ان کی ترقی کی رفتار کو دھیمی کردے۔