مزید خبریں

اخلاص کی اہمیت

اہل ایمان کی نیتوں کا خلوص شیطان کے لیے حد درجہ سوہان روح ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی شعلہ بار نگاہیں اسے برابر گھورتی رہتی ہیں۔ اس کے لیے یہ لڑائی کا ایسا محاذ ہوتا ہے جسے وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اگر اسے توڑ دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دوسرے سارے مورچے آپ سے آپ ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں۔ گویا اکیلے اس محاذ کا ختم ہوجانا پوری لڑائی کے ہر جانے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد نہ نماز نماز رہ جاتی ہے، نہ زکوٰۃ زکوٰۃ رہ جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ، نصرت اسلام اور اقامت دین کے صرف دعوے اور الفاظ رہ جاتے ہیں، ان کے اندر سے معنویت اسی طرح غائب ہوجاتی ہے، جس طرح دل کی حرکت بند ہوجانے سے جسم سے زندگی ناپید ہو رہتی ہے۔ اس خوف ناک بلا کے خطروں سے مامون تو کوئی بھی نہیں ہوتا، مگر جو شخص جتنی زیادہ نمایاں دینی پوزیشن رکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ ان خطروں کی زد میں رہتا ہے۔ اسلامی تحریکوں کے ذمے دار اور اصحاب امر، خواہ وہ کسی درجے کے ہوں، اپنے اپنے دائروں میں بہ ہر حال ایک خاص پوزیشن کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ پوزیشن بہ جائے خود بھی کمزور آدمی کے لیے فتنے کا سامان بن سکتی ہے، نفس آسانی سے اسے یہ وہم دلاسکتا ہے کہ امارت کا یہ منصب اس کے لیے ایک اعزاز اور وجہ افتخار ہے، حالاں کہ فی الاصل وہ ایک بھاری ذمے داری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس منصب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عنایت نے اسے کسی مخصوص اور نمایاں قسم کی صلاحیت سے بھی نواز رکھا ہو۔ مثلًا تحریر و تصنیف کی صلاحیت، یا تقریر و خطابت کی صلاحیت، یا مؤثر افہام و تفہیم کی صلاحیت۔ تو پھر خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے اور غافل شخص بڑی آسانی سے تَعلی کا شکار اور شہرت کا حریص بن جاتا ہے۔