مزید خبریں

قرب الٰہی کا حصول

قرب کی راہ میں مایوسی اور پست ہمتی تو کینسر کی طرح کے مرض ہیں، لیکن قابل علاج۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ: ’’اہل ایمان اللہ کی رحمت کی اْمید رکھتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 218) اور: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘۔ (یوسف: 87) اور: ’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں‘‘۔ (الحجر: 56)
قرب اور قرب کے راستے کے خودساختہ تصورات کیا ہیں جو پتھر بن کر سدّراہ ہو جاتے ہیں؟ قرب اس دنیا میں کسی کیفیت کا نام نہیں‘ کیفیت کی کوشش مطلوب ہے‘ خود کیفیت مطلوب نہیں۔ اس لیے کہ کیفیت آپ کے اختیار میں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی شے کو مطلوب قرار نہیں دیا جو انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔ کسی گناہ کا دوبارہ نہ ہونا بھی علامت قرب نہیں۔ اس طرح دوبارہ ہونا عدمِ استقامت اور ناراضی رب کی علامت نہیں ہے۔ جو صحیح راستے پر ہے‘ رخ صحیح ہے‘ کوشش میں لگا ہوا ہے‘ جو دن میں ہزارگناہ کرے لیکن ہر بار استغفار کی توفیق ملتی رہے‘ وہ قرب الٰہی کے راستے پر ہے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ایک دفعہ گرنے والا سنبھل سکتا ہے‘ ہزار بار گرنے والے کا سنبھلنا ناممکن ہے۔ اس غفور و رحیم کی شان میں یہ خیال کیسے کیا جا سکتا ہے‘ جو کہتا ہے کہ ’’وہ تم کو مغفرت کی طرف پکارتا ہے‘ وہ سارے گناہ معاف کردے گا‘ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اگر آسمان تک اور زمین بھر گناہ لائو گے تو اس سے اونچی اور وسیع مغفرت تمھارے استقبال کے لیے تیار ہے!‘‘ ایسا سمجھنا تو خدا کی لامحدود رحمت و مغفرت کو ہزار بار گرنے والے کے گرنے سے عاجز ہو جانا تصور کرنا ہے۔ کیا اس کی رحمت و مغفرت اتنی بھی وسیع نہیں کہ ایک ہی گناہ انسان ہزار بار کرے اور ہر بار اسے تکلیف ہو اور وہ پلٹ کر آئے اور وہ اسے اپنے اندر نہ سمیٹ سکتی ہو۔ آپ کم سے کم مشکوٰۃ میں توبہ اور استغفار کا باب ضرور دیکھ لیں اور قرآن مجید میں مغفرت کے عنوان پر جو آیات ہیں ان پر غور کریں۔
گرتے پڑتے چلنے سے کس انسان کو مفر ہوسکتا ہے؟ اگراللہ تعالیٰ کو گناہوں سے پاک زندگی مطلوب ہوتی تو فرشتے پہلے ہی موجود تھے۔ اس کو تو وہ مخلوق مطلوب تھی جو ظلم و جہل میں پڑ سکتی ہو اور نہ پڑے‘ اور اگر پڑجائے تو لوٹ آئے۔ اس کو بار بار آنے والے (اوّاب)‘ آہ آہ کرنے والے (اوّاہ)‘ لوٹنے والے (منیب) مطلوب ہیں۔ انھی سے جنت‘ رضا اور قرب کا وعدہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ تم گناہ نہ کرتے تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرنے کی استعداد رکھتی‘ گناہ کرتی‘ استغفارکرتی اور جنت کی مستحق بنتی۔ اگر گناہ گار اور منیب انسان نہ ہوتا تو جنت تو راہ تکتی رہ جاتی‘ خالی رہتی‘ اس لیے کہ وہ فرشتوں کے لیے نہیں بنائی گئی۔
کوشش کے بارے میں آپ کو یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ جس کو اللہ نے جہاں رکھ دیا ہے‘ جو کام سپرد کر دیا ہے‘ جو مواقع عنایت فرما دیے ہیں‘ انھی کو اخلاص و احسان کے ساتھ بجالاتے رہنا ہی جنت اور قرب کی راہ ہے۔ خود سے اپنے اوپر اعمال کا بوجھ لاد لینا‘ کسی خاص عمل پر نجات کو منحصرسمجھنا بھی صحیح نہیں۔ جنت اور قرب کا انحصار جب اعمال پر نہیں‘ بلکہ رحمت پرہے جس کو اعمال متوجہ کرتے ہیں‘ تو شہادت جیسے کسی عمل کو نجات کے لیے کافی سمجھ لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ کتنے غازی اور شہید ہیں جو عدم اخلاص کی وجہ سے‘ عدم صبر کی وجہ سے (جیسے یہ کہ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلی) جہنم میں چلے جائیں گے اورکتنے مجاہدین کی راہ میں آنکھیں بچھانے والے‘ صبح شام شہادت کی تمنا و دعا کرنے والے‘ مجاہدین کا سامان تیار کرنے والے‘ تیرانداز کے لیے تیر بنانے والے اور ہاتھ میں تھمانے والے جنت میں چلے جائیں گے۔ اگر جنت میں جانے کے لیے افغانستان اور فلسطین کے محاذ ہی درکار ہوتے تو سب انسان کیسے جنت میں جا سکتے تھے۔ جو محاذ اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ کے سپرد کر رکھا ہے اسی پر جان لگا کر کام پورا کریں۔ یہی جنت کی راہ ہے۔ پتا نہیں محاذ جنگ پر کیا پیش آئے۔ اسی لیے ہمیں تو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ یہ آرزو کریں کہ نبیؐ کے زمانے میں ہوتے۔ اس طرح کی سوچ اللہ کے فیصلے پر عدم رضا ہے۔ اْس زمانے میں تو ابولہب اور عبداللہ بن ابی بھی تھے‘ پتا نہیں ہم کہاں ہوتے۔
اطمینان بھی فی نفسہ مطلوب نہیں‘ ایمان اور عمل مطلوب ہیں۔ اپنے کسی عمل پر یہ اطمینان کہ اب ہم جنت میں چلے جائیں گے‘ بہت مہلک ہے۔ جو مطلوب حالت ہے وہ تو: ’’اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں‘‘۔ (السجدہ: 16) کی حالت ہے۔
اللہ جس راہ سے آپ کو جنت میں پہنچانا چاہتا ہے‘ اس سے غیر مطمئن ہو کر کوئی دوسری راہ کیوں تلاش کرتی ہیں؟ ہر معاملہ اس پر چھوڑنے میں اطمینان ہے۔ اس نے آپ پر اتنے خصوصی انعامات کیے ہیں کہ ان کا شکر ادا کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کی خواہش عطا کی ہے‘ یہ ایک ایسی بے بہا نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کے راستے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے‘ یہ خود کچھ کم قیمت نہیں‘ مگر اس نے تو آپ کو اس راہ پر قدم بڑھانے کی توفیق بھی عنایت کی ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ جب آپ سے خطا ہو جائے تو اس پر تکلیف اور ندامت اور واپس پلٹنے کی دولت بھی دی ہے اور سب سے بڑھ کر ‘ جس کے آگے سب نادار‘ محتاج اور فقیر ہیں‘ اس کے آگے اعمال کے لحاظ سے اپنی کم مایگی اور ناداری کا احساس بھی دیا ہے۔ ان سب باتوں کا آپ نے خود اقرار کیا ہے۔ آپ کو تو خوشی سے بھر جانا چاہیے‘ نہ یہ کہ بے چینی اور اضطراب‘ مایوسی اور کم حوصلگی کا شکار ہوجائیں۔ ایسی زندگی جس میں آپ بار بار اپنے محبوب کی طرف پلٹ کر آئیں بڑی لذیذ ہونا چاہیے‘ نہ یہ کہ آپ کے لیے یہ بار بن جائے۔ جو شکر کریں وہی مزید پاتے ہیں۔ یہ سب پاکر آپ زندگی سے فرار کا کیوں سوچیں۔ جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طریق نبوت عطا کر دیا ہے‘ تو طریق تصوف اور رہبانیت پر کیوں جائیں۔