مزید خبریں

غزوۂ خیبر

خیبر، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب وہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔
غزوے کا سبب
جب رسول اللہؐ صلح حدیبیہ کے نتیجے میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش ) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دو بازوؤں‘ یہود اور قبائل نجد‘ سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہر جانب سے مکمل امن وسلامتی حاصل ہوجائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پاکر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہوجائیں۔
چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔
رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تو اس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہلِ خیبر ہی تھے جو جنگِ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھالائے تھے۔ پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدر وخیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو۔ بنو غطفان اور بدوؤں۔ سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ اور اپنی ان کارروائیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبیؐ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو بار بارفوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً: ’’سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم‘‘ کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت۔ یعنی قریش۔ جو ان یہود سے زیادہ بڑی، طاقتور، جنگجو اور سرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رْخ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن جو نہی قریش کے ساتھ اس محاذآرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔
جنگ کی تیاری اور خیبر کے قلعے
جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہؐ داخل ہوئے فرمایا: میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرامؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ! ان کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے۔ فرمایا: انہیں بلالاؤ۔ وہ لائے گئے۔ رسول اللہؐ نے ان کی آنکھوں میں لعاب ِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ شفایاب ہوگئے، گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا: اطمینان سے جاؤ، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام میں للہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے ہیں ان سے آگاہ کرو۔ واللہ تمہارے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے:
1۔ حصن ناعم 2۔ حصن صعب بن معاذ
3۔ حصن قلعہ زبیر 4۔ حصن ابی
5۔ حصن نزار
ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا۔ اور بقیہ دوقلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کَتیبَہ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے :
1۔ حصن قموص (یہ قبیلہ بنو نضیر کے خاندان ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ )
2۔حصن وطیح 3۔حصن سلالم
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں، مگر وہ چھوٹی تھیں اور قوت وحفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی۔ دوسرے منطقے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔
جنگ ِ خیبر میں فریقین کے مقتولین
خیبر کے مختلف معرکوں میں کُل مسلمان جو شہید ہوئے ان کی تعداد سولہ ہے۔ چار قریش سے، ایک قبیلہ اشجع سے، ایک قبیلہ اسلم سے، ایک اہل خیبر سے اور بقیہ انصار سے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ ان معرکوں میں کل 18 مسلمان شہید ہوئے۔ علامہ منصور پوری نے 19 لکھا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں: ’’اہل سیر نے شہدائے خیبر کی تعداد پندرہ لکھی ہے۔ مجھے تلاش کرتے ہوئے 23 نام ملے ۔ زنیف بن وائلہ کا نام صرف واقدی نے اور زنیف بن حبیب کا نام صرف طبری نے لیا ہے۔ بشر بن براء بن معرور کا انتقال خاتمہ جنگ کے بعد زہر آلود گوشت کھانے سے ہوا جو نبیؐ کے لیے زینب یہودیہ نے بھیجا تھا۔ دوسرے فریق، یعنی یہود کے مقتولین کی تعداد 93 ہے۔