مزید خبریں

واقعۂ اصحابِ فیل

سورۂ فیل میں اصحاب فیل (ہاتھی والوں) کا واقعہ مختصراً ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں واقع اللہ کے گھر کو ڈھانے کے غرض سے یمن سے مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے تقریباً 10 کلو میٹر پہلے میدانِ عرفات کے قریب اُن کی فوج پر عذاب نازل کرکے ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کریم میں اس واقعے کا تذکرہ فرما کر نبی اکرمؐ کو تسلی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے، اس لیے جو لوگ دشمنی پر کمر باندھے ہوئے ہیں، آخر میں وہ بھی ہاتھی والوں کی طرح منہ کی کھائیں گے۔
اصحاب فیل کا واقعہ
یمن پر ملوک حِمیَر کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ مشرک تھے، اِن کا آخری بادشاہ ذو نواس تھا، جس نے اُس زمانے کے عیسائیوں پر بہت ظلم کیے تھے۔ اس نے ایک لمبی خندق کھدوا کر ایک اللہ کی عبادت کرنے والے تقریباً بیس ہزار عیسائیوں کو آگ میں جلا دیا تھا، جس کا ذکر سورہ البروج (اصحاب الاخدود) میں ہے۔ کسی طرح یہاں سے بچ کر دو عیسائیوں نے قیصر ملک شام کے دربار میں جاکر فریاد کی۔ قیصر ملک شام نے حبشہ (جو یمن سے قریب تھا) کے عیسائی بادشاہ سے یمن پر حملہ کرنے کو کہا۔ اس طرح ارباط اور ابرہہ دو کمانڈر کی قیادت میں یمن پر حملہ کرکے پورے یمن کو قوم حِمیَر سے آزاد کردیا۔ پھر ارباط اور ابرہہ دونوں کمانڈروں میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے باہمی جنگ ہوئی، ارباط جنگ میں مارا گیا، اور اس طرح ابرہہ یمن کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ ابرہہ نے یمن پر قبضہ کرنے کے بعد ایک شاندار کنیسہ اس مقصد سے بنایا کہ یمن کے لوگ مکہ مکرمہ جانے کے بجائے اسی کنیسہ میں عبادت کریں۔ عرب قبائل میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی، یہاں تک کہ کسی نے رات کے وقت کنیسہ میں گندگی پھیلادی اور اس کے ایک حصے میں آگ لگادی۔ ابرہہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے ملک حبشہ کے بادشاہ کی اجازت سے کعبہ کو ڈھانے کی تیاری شروع کردی۔ چنانچہ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لشکر لے کر وہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ عرب لوگ باوجود کہ وہ مشرک تھے، سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کے بنائے ہوئے بیت اللہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے ابرہہ کے خلاف جنگ لڑی مگر عرب لوگ مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے اور ابرہہ آگے بڑھتا گیا۔ طائف کے مشہور قبیلہ ثقیف نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس طرح وہ مکہ مکرمہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر میدان عرفات کے قریب مغمس مقام پر پہنچ گیا، جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے۔ ابرہہ کے لشکر نے اُن اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جن میں دو سو اونٹ نبی اکرمؐ کے دادا عبدالمطلب کے تھے۔ ابرہہ نے ایک نمائندہ مکہ مکرمہ بھیجا تاکہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جاکر اطلاع دے کہ ہم تم سے جنگ کرنے نہیں آئے ہیں، ہمارا مقصد بیت اللہ کو ڈھانا ہے۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ عبدالمطلب ابرہہ سے ملنے کے لیے پہنچے اور اس سے اپنے دو سو اونٹوں کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ کو بڑا تعجب ہوا کہ قبیلے کا سردار صرف اپنے اونٹوں کی بات کرتا ہے، بیت اللہ کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں، مجھے اِن کی فکر ہے، اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں ہوں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے، جو اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمہارا اللہ اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچا سکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ عبدالمطلب اونٹ لے کر واپس آئے تو انہوں نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگی اور پھر مکہ والوں کو ساتھ لے کر اس یقین کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے کہ یقیناً ابرہہ کے لشکر پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ صبح ہوئی تو ابرہہ کے لشکر نے بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا تو اس کا محمود نام کا ہاتھی بیٹھ گیا اور وہ مکہ مکرمہ کی طرف چلنے کے لیے تیار نہیں ہوا، جبکہ دوسری طرف وہ چلنے لگتا تھا۔ اسی دوران پرندوں کا ایک غول نظر آیا، جن میں سے ہر ایک کے پاس چنے کے برابر تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنچوں میں، جو انہوں نے لشکر کے لوگوں کے اوپر برسانی شروع کردیں۔ ان کنکریوں نے وہ کام کیا جو بارودی گولی بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جس پر یہ کنکری لگتی، اس کے پورے جسم کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔ یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہیں ہلاک ہوگئے اور کچھ لوگ جو بھاگ نکلے، وہ راستے میں مرے، اور ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک حصہ سڑگل کر گرنے لگا، اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا اور وہاں اس کا سارا بدن بہہ بہہ کر ختم ہوگیا۔ اس کی موت سب کے لیے عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے جو اپاہج اور اندھے ہوگئے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے ان کو دیکھا بھی تھا۔
ہاتھیوں کو ساتھ لانے کا مقصد
ان کا یہ خیال تھا کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور لمبی زنجیریں باندھ کر ان زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھیں اور ان کو ہنکادیں تو سارا بیت اللہ (معاذ اللہ) گر جائے گا۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ ہاتھیوں کا ساتھ لانا ہی ان کی ذلت آمیز شکست کا سبب بنا۔
اصحاب فیل کا واقعہ کب پیش آیا: اس واقعے کی تاریخ اور سن میں مؤرخین کا اختلاف ہے، معتمد قول یہ ہے کہ یہ واقعہ نبی اکرمؐ کی ولادت کے سال پیش آیا تھا۔
اصحاب فیل (ہاتھی والوں) کے اس واقعے کی وجہ سے عربوں میں اللہ کے گھر اور اس کی نگرانی کرنے والے قبیلہ قریش کی اہمیت وعظمت بڑھ گئی۔ چنانچہ وہ ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے، اور اس طرح ان کے سفر کسی بھی خطرے سے خالی تھے۔ غرضیکہ قبیلہ قریش کے لوگ سال میں دو سفر کیا کرتے تھے، ان ہی سفروں کا ذکر اللہ تعالیٰ اگلی سورت میں کررہے ہیں۔
بیت اللہ: بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے زمین پر بنایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت وہدایت والا ہے۔ (سورہ آل عمران) بیت اللہ مسجد حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کے لیے بھی بیت اللہ کا طواف بند نہیں ہوتا۔
عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ نبی اکرمؐ کی سنت کے مطابق بیت اللہ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔