مزید خبریں

ذرائع ابلاغ کی تقسیم میں سیاسی جماعتوں ،سرمایہ داروں ،اسٹیبلشمنٹ کا بڑا ہاتھ ہے

کراچی(رپورٹ: محمد علی فاروق)ذرائع ابلاغ کی تقسیم میں سیاسی جماعتوں، سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا ہاتھ ہے‘ حکومت سرکاری اشتہارات کو میڈیا ہائوسز پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کرتی ہے ‘صحافیوں کو رشوت دینے کی کوشش کرتی ہے‘ اب ذرائع ابلاغ مظلوم کی آواز نہیں رہا بلکہ پیسہ بنانے کی میشن بن گیا ہے‘ قومی مفادات کو فراموش کردیا گیا‘ سرمایہ داروں، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا گٹھ جو ڑ پوری دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس، کراچی یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر اسامہ شفیق اور کراچی یو نیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ذرائع ابلاغ سیاسی تقسیم کا شکار کیو ں ہیں؟‘‘مظہر عباس نے کہا کہ کسی ایک چینل کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ چینل پی ٹی آئی کا ہے‘ اس کے برعکس دوسرا چینل دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چینل تو پی ایم ایل (این) کا سپوٹر ہے‘ میرا خیال ہے کہ اس وقت صحافت کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ اصل صحافت کو واپس اصلی حالت میں لایا جائے لیکن یہ آسان نہ ہوگااس لیے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سیاسی اور معاشرتی طور پر انسان اس قدر تقسیم ہوچکے ہوں کہ کسی چینل پر غیر جانبدارانہ تبصرہ کرنا بھی سامعین کو ناگوار گزرتا ہو تو ایسے معاشرے میں تقسیم کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی وہاں کے صحافیوں اور صحافتی اداروں کی بنتی ہے‘ اس تقسیم کے رجحان کی وجہ سے ہمارے ملک کا بہت نقصان ہو چکا ہے اور صحافتی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اب اس تقسیم کو ختم ہونا چاہیے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ ٹی وی چینل اور یو ٹیو برز اگر کسی جماعت یا گروہ سے منسلک ہوگئے ہیں تو ان کی ناصرف ویورشپ لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے بلکہ یو ٹیوب سوشل میڈیا ، وی لاگ ، فیز بک یا کسی دوسرے فورم پر انہیں مالی فوائد کے ساتھ ساتھ یہ افراد لاکھوں لوگوں کی پہچان بھی بن جاتے ہیں اس کے برعکس اصل صحافت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ پروفیسر اسامہ شفیق نے کہا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ شروع دن سے ہی تقسیم کا شکار ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ تقسیم مزید گہری ہو چکی ہے‘ الیکٹرونک میڈیا کے آنے سے قبل پریس میڈیا نظریاتی تقسیم کا شکار تھا یعنی ذرائع ابلاغ میں دائیں اور بائیں بازو کے حمایت یافتہ افراد کی واضح تقسیم دیکھی جاسکتی تھی ‘ اب الیکٹرونک میڈیا آچکا ہے جس کو جدید دنیا میں (پوسٹ ماڈل ورلڈ ) کہتے ہیں یعنی جو سرمایہ دارانہ نظام کا حاصل ہے اس میں ذرائع ابلاغ کسی نظریے کا غلام نہیں بلکہ سرمائے کا غلام ہے اور سرمایہ ہی ذرائع ابلاغ کی جہد کا تعین کرتا ہے کہ اسے اب کس سمت جانا ہے‘ بنیادی طور پر ذرائع ابلاغ اب صرف اور صرف پیسہ بنانے کی مشین بن گیا ہے اور جو زیادہ دولت دیتا اور اسے تحفظ فراہم کرتا ہے ‘ مشاہدے میں بھی آیا ہے کہ حکومتوں کے آنے اور جانے سے سرکاری اشتہارات کی ریل پہل سے بھی ذرائع ابلاغ کا موقف اور ماحول یکسر تبدیل ہوجاتا ہے ‘ سیاسی جماعتوں اور کارپوریٹس کاروباری گروپس بھی ذرائع ابلاغ کی تقسیم میں برابر کے شریک ہیں‘ کارپوریٹس گروپس سیاسی جماعتوںکو فنڈنگ کر کے پوری دنیا میں حکومت کرتے ہیں‘ یہی کارپوریٹ گروپس حکومتیں گراتے اور بناتے ہیں ‘ برطانیہ ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں یہی طریقہ کار ہے اور اب پاکستان میں بھی فارن فنڈنگ کیس ، تحریک عدم اعتماد اور دیگر معاملات یا پھر کے الیکٹرک ، بحریہ ٹائون اور ان جیسے دیگر بڑے پروجیکٹس میں کارپوریٹس کی شمولیت کی واضح مثالیں سامنے آئی ہیں۔ اسامہ شفیق نے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرمایہ دار ، ذارئع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں کا ایک گٹھ جو ڑ بن گیا ہے جو پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے گردش کر رہا ہے بس فرق اتنا ہے کہ دنیا میں اس کے کچھ نہ کچھ اصول قواعد وضوابط ہ ہیں مگر پاکستان میں اس حوالے سے بدقسمتی سے کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے‘ ہم کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ مظلوموں کی آواز ہے‘ یہ مفروضہ اب غلط ثابت ہوگیا ہے‘ اب یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ذرائع ابلا غ بھی سرمایہ دار اور طاقتور یا مقتدر افراد کی آواز بن گیا ہے‘ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی تبدیلی میں ایک نیا پہلو بھی سامنے آ یا ہے وہ یہ کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے طے کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اب کوئی ایک ڈومن میڈیا گروپ یا ڈومن ڈسکوز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے برعکس مختلف ذرائع ابلاغ کے گرپوں کو بھی مراعات دی جائیں‘ کبھی ایک جگہ سے اورکبھی دوسری جگہ سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جائے‘ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے میڈیا گروپوںکو اسپانسر کیا گیا‘ ان کے لیے ہیڈنگ فنڈنگ کی گئی ا ور ہیڈنگ فنڈنگ تو ایک ایسی چیز ہے جس کا کہیں کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوتا‘ گزشتہ عرصے میں سب نے دیکھا کہ آئی ایس پی آر کے پروگرامز زیادہ تر اے آر وائی نیوز گروپ کرتا رہا جبکہ بول نیٹ ورک کے حوالے سے بھی سارا معاملہ دنیا کے سامنے رہا ہے‘ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا کہ میڈیا کے ایک بڑے گروپ کی مونو پلی کو ختم کرنا لازمی ہے اس تناظر میںدیکھیں تو پاکستا ن میں ذرائع ابلاغ کی تقسیم میں ایک جانب پیسے کا عمل دخل ہے جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کا بھی بہت بڑا ہاتھ نظر آتا ہے ان تمام معاملات کا بحیثیت مجموعی نقصان تو بہر حال قوم و ملک کا ہو رہا ہے ۔پروفیسر نوید اقبال انصاری نے کہا کہ جائز ہ لینے سے میڈیا کی سیاسی تقسیم کی 3 وجوہات نظر آتی ہیں‘ پہلی قومی مفادات کی اولین ترجیح کا فقدان ، دوسرا میڈیا ہائوسز کا سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جانا اور تیسرا سیاسی رشوت کے طور پر حکومت کی جانب سے صحافیوں اور صحافتی اداروں کی مالی معاونت شامل ہے ‘ اس ضمن میں حکومت یا افسران کی سطح پر مراعات دینا تو تاریخ کا حصہ رہا ہے‘ 18ویں اور19 ویں صدی کے آغاز تک جو اخبارات نکلتے تھے ان کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ انہیں بھی سرکار سے رشوت یا کسی نہ کسی شکل میں امداد فراہم کی جاتی تھی‘ انقلاب فرانس کے دوران ذرائع ابلاغ سے جڑے اداروں کو رشوت دی گئی‘ آج پاکستان میں بھی ذرائع ابلاغ کے ادارے پوری طرح سے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں‘قومی مفادات کوفراموش کردیاگیا‘ ماضی میں کارل مارکس اور ان کے ہمنواؤں کا شکوہ بھی یہی تھا کہ سرمایہ داروں نے ذرائع ابلاغ پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ان کے حق میں پرپیگنڈا کرتے ہیں ‘ ذرائع ابلاغ سرمایہ داروں کے خلاف کسی قسم کی ایماندارانہ رپورٹنگ یا تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ ذرائع ابلا غ سے وابستہ افراد کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے صحافیوں کی ہر طر ح کی مدد کی جاتی ہے‘ صحافیوں کو خریدنے کے لیے ہر حربہ بروئے کار لا یا جا تا ہے ، ٹا ک شو اور دیگر پروگرومز میں سب سے زیادہ وقت سیاسی افراد کو اور سیاسی موضوعات کو ہی دیا جاتا ہے ،جس سے سیاسی پروگرامزا کو دیکھنے کا ریشو معاشرے میں بڑھ جاتا ہے اس ریشو سے ٹی وی چینل اور سیاسی جماعتوںکو ہی فائد ہ پہنچتا ہے۔