مزید خبریں

طلاق ، خلع کی شرح بڑھنے کی وجہ اسلامی تعلیم سے دوری اور مغرب کی اندھی تقلید ہے

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی)طلاق ، خلع کی شرح بڑھنے کی وجہ اسلامی تعلیم سے دوری اور مغرب کی اندھی تقلید ہے‘ میاں بیوی اپنی لائن سے تجاوز کریں تو فساد ہو تا ہے‘ گناہوں نے لوگوں کا دل سیاہ کردیا‘ فیملی کورٹس ایکٹ کے تحت علیحدگی کے عمل کو آسان تر بنا دیا گیا‘ حیا باختہ ڈراموں اور فلموں نے سماجی اقدار کو تباہ کردیا‘ ملک میں طلاق کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتازعالم دین شیخ ابو نعمان بشیر احمد، ممتاز قانون دان لئیق احمد، کالم نگار اور مصنف سید عزیزاللہ شاہ اور ممتا زکالم نگار شبانہ ایاز نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں طلاق اور خلع کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟‘‘ شیخ ابو نعمان بشیر احمد نے کہا کہ میاں بیوی اگر اپنی لائن سے تجاوز کریں تو گھر میں فساد ہوتا ہے اور نوبت عداوت و دشمنی اور علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے‘ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب میں اسلامی تعلیم کا فقدان بھی شامل ہے جس طرح عورت کے ذمے مرد کے حقوق ہیں اسی طرح مرد کے ذمے عورت کے بھی حقوق ہیں اور ان حقوق کو جاننے کے لیے اسلامی تعلیم کا جاننا بہت ضروری ہے تاکہ حق تلفی کی وجہ سے تعلقات میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں اختلافات کا ہو جانا ایک فطرتی عمل ہے لیکن ان کو جلدی ختم نہ کرنااور طول دینا بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے‘ معمولی اختلافات آہستہ آہستہ سنگین حالات پیدا کر دیتے ہیں‘ بعض مرد بیوی کو لڑائی جھگڑے کی صورت میں گھر سے نکالنے کی دھمکی دینا شروع کر دیتے ہیں یا کھانا پینا روک لیتے ہیں یا مارپیٹ شروع کر دیتے ہیں‘ یہ تمام کام شرعی اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی قبیح ہیں اور بعض اوقات ان کا نتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اسی طرح بعض لوگ شادی کی ابتدا میں استطاعت سے بڑھ کر اخراجات شروع کر دیتے ہیں اور بعد میں کنگال یا مقروض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں‘ پھر گھر میں اختلافات کی ابتدا شروع ہو جاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے اس لیے ابتدا ہی سے میانہ روی اختیار کرنا کامیابی ہے۔ اسی طرح بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر بیوی کو جہیز کم لانے کا طعنہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے خاوند بیوی کے درمیان نفرت پیدا ہو جاتی ہے‘ دیگر وجوہات میں اولاد نہ ہونے کا طعنہ دینا، میاں بیوی کا ایک دوسرے سے بد زبانی کرنا، نکاح کے وقت طے کی گئی شرائط کو پورا نہ کرنا، بدگمانی و شکوک و شبہات رکھنا، میاں بیوی کا ایک دوسرے کے رشتہ داروں کی عزت نہ کرنا شامل ہے‘ طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ گناہوں کا ارتکاب ہے‘ گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود اور آ ہستہ آہستہ مکمل سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ شبانہ ایاز کے مطابق موجودہ دور میں خاندانی نظام بری طرح سے شکست و ریخت کا شکار ہو رہا ہے‘ گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان میں طلاق کی شرح میں 60 فیصد اضافہ لمحہ فکر ہے‘ 2000ء تک پاکستان میں طلاق کی شرح امریکا اور یورپی ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی‘ پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015ء میں منظور ہوا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے‘ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 2020ء میں اعلیٰ تعلیم یافتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھا ہے‘خود کمانے اور خود کفیل ہونے کا گھمنڈ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے‘ پاکستان میں مصالحتی کونسلز کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی شرح طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے‘ قاضی اور منصفین کی ذمے داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی کے جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں تاکہ طلاق کے خدشات زائل ہوں اور طرفین کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے‘ نکاح انسانیت کی بقا کے لیے ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے‘ دین سے دوری، حقوق و فرائض سے غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے دوری، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط کے ذرائع نے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھارا کہ ان جذبات کی تکمیل کے لیے نہ حلال دیکھا جاتا ہے نہ حرام۔ حرام کی لذت میں مگن مرد و زن طلاق جیسے گناہ کو بغیر سوچے سمجھے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ گھریلو و خاندانی تنازعات، نشہ، ذرائع ابلاغ، سماجی روابط اور موبائل فون کے زیادہ استعمال سے عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں طلاق اور خلع کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘ آج کل کے ڈراموں میں طلاق اہم موضوع ہے مگر افسوس کہ ان ڈراموں میں طلاق سے بچنے سے زیادہ فوکس طلاق کرنے یا کرانے پر ہے۔ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کے بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کروائی جا رہی ہیں‘ اس حوالے سے میڈیا کو اپنی روش درست کرنا ہوگی‘حکومت کو چاہیے کہ اسلامی احکامات اور معاشرتی سکون کو بنیاد بنا کر لوگوں میں طلاق کے خلاف آگاہی پیدا کرے۔ عزیزاللہ شاہ کے مطابق تربیت اور اخلاقیاتِ اسلام سے دوری کی وجہ سے مرد و خواتین ’’برداشت‘‘ کے بجائے ’’انا‘‘ کو زندگی گزارنے کا بہتر اسلوب گردانتے ہیں جس وجہ سے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں اور نتیجہ علیحدگی پر نکلتا ہے‘ طلاق جہاں خود میاں بیوی کی ذہنی، نفسیاتی اور روحانی زندگی کو متاثر کرتی ہے وہیں اُس کی زد میں آنے والے کنبے بھی شدید اذیت سے گزرتے ہیں اِسی طرح بچے خاص کر اِس کوفت اور اذیت کا سامنا کرتے ہیں اور جرمِ ناکردہ کی سزا ساری زندگی بھگتے ہیں۔ لئیق احمد کے مطابق ماضی کے مقابلے میں طلاق اور خلع کی شرح خطرناک حد تک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو خاندانی نظام کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے‘ پچھلے 50 سال میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہے‘ ایک رپورٹ کے مطابق 1970ء میں طلاق کی شرح پاکستان میں 13 فیصد تھی یعنی100 میں سے 13 شادیوں میں طلاق کا تناسب تھا اور حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے یعنی 100 میں سے40 شادیوں میں طلاق ہو رہی ہے‘ 2 شادی شدہ افراد میں علیحدگی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے‘ قربانی دینے کے عزم میں کمی اور عدم برداشت ہے ‘ زیادہ ترشوہر غصّے میں ہی طلاق دیتے ہیں اور پھر پوری زندگی پچھتاتے ہیں‘ این جی اوز کی مادر پدرآزادی نسواں اور بے لگام روشن خیالی مہم نے بھی اس شرح میں اضافہ کیا ہے‘ سابق اور موجودہ حکومت کی آزادی نسواں اور روشن خیالی مہم نے بھی اِس شرح میں اضافہ کیا ہے‘ عورتوں کی آزادی اور ان کے لیے انصاف کی فوری فراہمی کے خلاف کوئی ذی شعور نہیں ہو سکتا‘ بشرطیکہ یہ اسلامی حدود اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو‘ مگر یہ مہم پاکستان کے مسلم معاشرہ کے مشترکہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے تاکہ عورت چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل اور بازار کی جنس بن جائے‘ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ہمارے ملک میں محبت کی شادیوں کے حق میں فضا ہموار کی جا رہی ہے‘ اس کے برخلاف انسانی اور خاندانی معاملات سے تعلق رکھنے والے قوانین اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان میں فوری انصاف کا حصول مشکل ترین نہیں تو مشکل تر ضرور ہے۔