مزید خبریں

وسائل ِ رزق

جہاں تک کسبِ حلال کے سب سے زیادہ نفع بخش ذرائع و وسائل کا تعلق ہے، تو وہ ہیں: اللہ پر توکل، اس کے کافی اور رزق رساں ہونے پر پورا بھروسا، اور اس کے متعلق اچھا گمان۔ چنانچہ رزق کی تلاش کرنے والے کو چاہیے کہ رزق کے معاملے میں اللہ کا سہارا تلاش کرے اور اسی سے مانگے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلاؤں، اس لیے تم مجھ ہی سے رزق مانگو، میں تمھیں پہناؤں گا‘‘۔ امام ترمذی نے سیدنا انسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’تمھیں اپنی تمام ضرورتیں اور مرادیں اللہ ہی سے مانگنی چاہییں، حتیٰ کہ اگر تمھارے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے، تو وہ بھی اپنے رب ہی سے مانگو، اس لیے کہ اگر وہ نہ دینا چاہے تو کچھ میسر نہیں آسکتا‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ سے اس کا فضل مانگو‘‘۔ (النساء: 32) مزید ارشاد ہے: ’’پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔ (الجمعہ: 10) یہ آیت اگرچہ نمازِ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس کا اطلاق تمام نمازوں پر ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے آپؐ نے مسجد میں داخل ہوتے وقت ’’اللھم افتح لی ابواب رحمتک‘‘ اور نکلتے وقت ’’اللھم انی اسئلک من فضلک ورحمتک‘‘ کی دعائیں پڑھنے کی تعلیم دی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ سے رزق مانگو اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو‘‘۔ (العنکبوت:17 ) یہ امر (حکم) ہے، اور امر، واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور رزق کے معاملے میں اسی کا دامن تھامنا، بہت بڑا دینی اصول ہے۔
پھر چاہیے کہ مال کو پورے استغناے نفس کے ساتھ لے، تاکہ اس میں برکت واقع ہو۔ حرص و ہوس اور دل کی رغبت و شوق سے اسے نہیں لینا چاہیے۔ بندے کے ہاں مال کی حیثیت ایسی ہوجائے کہ اس کی ضرورت تو ہے، مگر دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں، اور مال و دولت کے لیے دوڑ دھوپ صرف اتنی اور اس حد تک ہونی چاہیے، جیسی قضاے حاجت کے لیے ہوتی ہے۔ ترمذی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس پر اس حال میں صبح آئی کہ دنیا کا حصول ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو پراگندہ کردے گا، اور اس کے وسائل رزق کو منتشر کردے گا، اور دنیا میں سے اسے صرف اتنا ہی حصہ ملے گا، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ مگر جس پر صبح اس حال میں آئی کہ آخرت ہی اس کا سب سے بڑا مطمح نظر تھا، تو اللہ اس کے معاملات کو سنوار دے گا، اس کے دل میں استغنا اور بے نیازی پیدا کردے گا، اور دنیا مجبور و رْسوا ہوکر اس کے قدموں میں آگرے گی‘‘۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ تمھیں دنیا میں سے حصہ پانے کی ضرورت تو ہے، مگر آخرت میں سے حصہ پانے کی تمھیں اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر تم نے آخرت کے حصے سے آغاز کیا، تو دنیا کا حصہ تمھیں خود بخود مل کر رہے گا۔
جہاں تک صنعت و حرفت، تجارت و زراعت یا عمارت سازی اور رزق کے اس طرح کے دیگر وسائل و ذرائع میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا تعلق ہے، تو اس کا دارومدار آدمی کے طبعی میلان پر ہے، اس بارے میں کوئی لگا بندھا اصول و قاعدہ میرے علم میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے کسی پیشے کو اختیار کرنا چاہے تو اسے حضورؐ کے سکھائے ہوئے استخارہ پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں ناقابلِ بیان حد تک برکت ہے۔ اس کے بعد جو چیز اسے میسر ہوجائے، اسے چھوڑ کر خواہ مخواہ بلاضرورت کسی اور پیشے میں ٹانگ نہ اڑائے، الاّ یہ کہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہو۔ ترجمہ: عبدالحی ابڑو