مزید خبریں

ہمارے ایک قوم نہ بننے کی وجہ حکمرانوں کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ہمارے ایک قوم نہ بنے کی وجہ ’’حکمرانوں کی لڑائو اور حکومت کروکی پالیسی‘‘ ہے‘ زبان اور قومیت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم در تقسیم کیا گیا‘ پاکستانی ہونے کا مطلب اپنی ذات برادری کی شناخت سے دست بردار ہوجانا نہیں، عصبیت کو ہوا دینا غلط ہے ‘ ہم پاکستانی ایک قوم ہی ہیں، اختلافات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ قیام پاکستان کے مقاصد کو پورا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ اور ممتاز تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی اور لمز یونیورسٹی کے پروفیسر ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ہم پاکستانی75 برس میں بھی ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟‘‘ امیر العظیم کا کہنا تھا کہ ہم جو ایک قوم نہیں بن سکے‘ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکمران طبقے پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اس کے برعکس عوام کو مختلف بنیادوں پر تقسیم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا‘ ہمارے حکمرانوں نے معیار زندگی کے لحاظ سے عوام کو 2 واضح طبقات میں تقسیم کیا جس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا اسی طرح علاقے، زبان اور قومیت وغیرہ کی بنیاد پر بھی عوام میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو دہرایا گیا‘ شناخت کی حد تک ذات برادری اور قبائل وغیرہ کی تقسیم میں حرج نہیں مگر اسے عصبیت کی شکل دینا اور ہر صورت اپنے طبقے کی حمایت میں کھڑے رہنا خواہ وہ ظلم پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، یہ بہرحال درست قرار نہیں دیا جا سکتا‘ اہل پاکستان کو ایک قوم بنانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جس مقصد کی خاطر پاکستان حاصل کیا گیا ہے وہ پورا کیا جائے‘ اسلام ہی ہمیں ایک قوم بنائے گا‘ حکمران عوام کا معیار زندگی بہتر بنائیں یا جو معیار عوام کا ہے، اپنی زندگی بھی اسی معیار کے مطابق لے آئیں ‘ اس طرح زندگی میں سکون آئے گا اور عوام میں ایک قوم ہونے کا احساس اُجاگر ہو گا۔ مجیب الرحمن شامی نے موقف اختیار کیا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ ہم ایک قوم نہیں، ہم پاکستانی ایک قوم ہیں‘ زندگی میں کئی رشتے ہوتے ہیں ‘ ایک شخص بھائی بھی ہوتا ہے، باپ بھی اور بیٹا بھی۔ ایک رشتے اور تعلق کا اظہار دوسرے کی نفی ہرگز نہیں‘ پٹھان، سندھی، پنجابی، بلوچی اور مہاجر رہتے ہوئے بھی ہم پاکستانی رہ سکتے ہیں‘ اس میں کوئی تضاد نہیں، جس طرح ایک بیٹا، باپ بھی ہوتا ہے اور بھائی بھی۔ اسی طرح ایک پاکستانی ذات برادری سے وابستگی بھی رکھتا ہے اور علاقائی یا لسانی شناخت بھی، اس سے پاکستانیت پر کوئی حرف نہیں آتا‘ ہم سب ملکیدستور پر یقین رکھتے ہیں‘ پاکستان ہمارا وطن ہے ہم اسمبلیوں میں اکھٹے بیٹھ کر مسائل پر بحث کرتے ہیں‘علاقائی اور لسانی یا ذات برادری وغیرہ کی تفریق ہر جگہ ہوتی ہے حتیٰ کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ اپنے اپنے علاقائی پس منظر کے حوالے سے شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ ہم پاکستانی ایک قوم ہی ہیں، اختلافات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ تاریخی حوالے دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں‘ بلوچ، پنجابی، پختون، شیعہ اور سنی سب پاکستانی ہیں‘ قوم کے لیے کوئی ایسی شرط نہیں کہ وہ ایک رنگ یا ایک نسل سے تعلق رکھتے ہوں یا وہ کوئی ایک زبان بولتے ہوں۔ پاکستان ایک کثیر الجہتی معاشرہ ہے جس میں لوگ مختلف حوالوں سے شناخت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم سب پاکستانی ہیں، معمول کے اختلافات کو ذرائع ابلاغ پر منفی رنگ دے کر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ ہم اکھٹے رہتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں‘ رنگ و نسل کا اختلاف کس ملک میں نہیں ہوتا، اس کا ریاست سے وفاداری سے کوئی تعلق نہیں‘ اختلاف رائے بھی معاشرے کا حسن اور معاشرتی زندگی کا جزو لازم ہے اسے ختم کیا جا سکتا ہے نہ اس کی ضرورت ہے‘ ہمارے پاکستانی ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ہم دیگر شناختیں ختم کر دیں یا رائے کے اختلاف کا اظہار نہ کریں۔