مزید خبریں

حکمران معیشت بحال کریں

پورا ملک عجیب بے چینی اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ساری قوم ملک کی بد ترین معاشی صورتحال میں کمر توڑ مہنگائی کے سامنے پورے زور کے ساتھ کھڑی ہے اس سوچ کے ساتھ کہ ابھی گئی تو ابھی گئی۔ پھر سنبھالے گی حکومت ہمیں تب سمجھ آئے گی اسے۔ حکومت یہ سوچ کر مطمئن کہ بتا کر سب کر رہے ہیں کہ عوام قربانی کے لیے تیار رہے۔
اس ساری صورتحال پر پوری قوم ’’بغیر لیڈر کے ہجوم‘‘ کی طرح خاموشی سے سوچ بچار میں ڈوبی ہوئی ہے کہ کس کے ہاتھ پر معیشت کا لہو تلاش کریں کس نے خون کر دیا معیشت کا۔ قوم سوچ بچار کرنے کے حوالے سے مختلف گروہوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے۔ ان ہی گروہوں میں ایک بیچارے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کا گروہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نہ افغان جہاد دیکھا نہ بھٹو کا سول مارشل لاء۔ نہ ان کو پی پی پی کا پہلا دور حکومت اور نہ وہ الیکشن یاد ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی نے 300 کے قومی اسمبلی کے ایوان میں سے صرف 86 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے وفاق میں اپنی حکومت بنا لی تھی۔ چاہے اس چکر میں آدھا ملک گنوا دیا۔ اس نئی نسل نے تو یہ نظارہ بھی نہ دیکھا کہ کیسے کوئی قتل کی ہدایت یا مشورہ دینے کے الزام میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا پا گیا چاہے اس نے نہ فائر کیا ہو نہ وہ موقع پر موجود ہو اور یہ کام کسی عام پاکستانی کے ساتھ نہیں کیا۔ ہماری عدالت عظمیٰ نے، بلکہ وزیراعظم پاکستان کو تختہ دار پر کھینچ ڈالا ہماری عدلیہ نے اپنی نوعیت کے عدالتی تاریخ کے کمزور ترین مقدمے میں۔ ان بچوں نے نہ غیر جماعتی انتخابات دیکھے نہ ان سے حاصل شدہ اسمبلیاں نہ ان میں بیٹھنے والے سیاستدان دیکھے جن پر ڈکٹیٹر کی کنیزیں ہونے کا گمان ہوتا تھا اور جو صرف ربڑ سٹیپ تھے ڈکٹیٹر کے ان لوگوں نے نہ ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا آغاز دیکھا نہ وزیراعظم بی بی شہید کے خلاف 1989 والی تحریک عدم اعتماد کا چھانگا مانگا دیکھا۔ ان لوگوں نے دیکھا تو زیادہ سے زیادہ مشرف کی کمانڈو گیریاں، ق لیگ کی قلابازیاں یا پاکپتن کی پیرنی کا سہیلی سمیت وزیراعظم ہاؤس اور پنجاب حکومت پر قبضہ دیکھا۔ ان میں سے کافی مسائل سے جان چھوٹ چکی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انفارمیشن کے دور میں آنکھ کھولی اور میڈیا کو ہر وقت ہمارے لیے بریکنگ نیوز کے لیے سر پٹ دوڑتے دیکھا۔ ہم مالی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہیں، عوام کو قربانی دینا ہو گی۔ مہنگائی آسمان کو چھوتی ہوئی، غریب کے منہ سے مہنگائی نے دو وقت کی روٹی چھین لی، ڈالر کی اونچی اْڑان، روپے کی بے قدری جاری، میاں صاحب کب وطن واپس آئیں گے، حکومتوں کی تبدیلیوں میں پہلی بار غیر ملکی مداخلت کا شور اور دہائی، اسٹیبلشمنٹ نامی ایک ان دیکھی طاقت کا بے پناہ اثر و رسوخ، ان سب باتوں سے یہ نسل پیدائشی طور پر آگاہ ہے۔ سو یہ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔ پریشانی اور فکر کی کوئی بات نہیں۔ یا شاید یہ لوگ سوچتے ہوں کہ اس ملک میں مستقبل انتہائی غیر یقینی ہے اس لیے جلد از جلد تعلیمی ویزہ کے بہانے یا بسلسلہ روزگار ملک سے راہ فرار اختیار کی جائے
اور کسی اور ملک کی نیشنیلیٹی لے کر وہاں بسیرا کر لیا جائے۔ خیر دونوں اقسام کی سوچیں ان اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے ذہن میں موجود ہو سکتی ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے دونوں طبقے ہی اپنے ذہنی افکار میں مادر وطن سے مکمل لا تعلقی اور ملک کے جسد معاشی سے رستے ہوئے خون کو نہ روکنے اور ایسے ہی بہنے دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے انتہائی زیادہ مہلک ہے۔ ابھرتی ہوئی نئی نسل کا ملک کے اہم ترین مسائل سے سرے سے لا تعلق ہو جانا ہی بذات خود ایک انتہائی مہلک نقصان ہے جس کی قیمت چکانے میں قوم کو کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ کوئی ایسا منصوبہ حکومت وقت کے پاس نہیں کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی سوچ اس شدید منفی انفارمیشن کے دور میں جب ہر طرف مفلسی اور مہنگائی نے ہاہا کار مچا رکھی ہو، کس طرح مثبت اور تعمیری رکھی جا سکتی ہے۔ حکومت کا کوئی ایسا منصوبہ بھی نہیں ہے کہ وہ نئی نسل کو باور کروانے کی کوشش کرے کہ اگر پوری قوم خصوصی طور پر نوجوان طبقہ چاہے تو سب کچھ بدل سکتا ہے۔ یعنی کم عمر پاکستانی تو لا تعلق ہیں ہی، حکومت وقت کو بھی اس طبقے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ کیوں کر وہ لا تعلقی چھوڑ کر مثبت اور تعمیری سوچ سے مجموعی قومی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالے۔قوم کا دوسرا طبقہ 60 سال سے اوپر کا ریٹائرڈ اور بزْرگ طبقہ ہے جن کو ملک و قوم کے فکر کی بجائے یا تو صرف اپنی آخرت کی فکر ستائے جا رہی ہے اور وہ صرف عبادات پر ہی فوکس کیے ہوئے ہیں کہ ان کو یہ یقین آ چکا ہے کہ ان برباد شدہ حالات کو وہ بہتر نہیں کر سکتے حالانکہ حالات کی تباہی کا ذمہ دار یہی طبقہ ہے انہی کے ادوار میں وہ فصل بوئی گئی جو آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی تجربے کار ہونے کے زعم میں نان اسٹاپ نصیحتیں وہ بھی صرف اپنی اولاد یا نسل کے فائدے کے لیے۔ مجموعی قومی پریشانی نہ تو ان کی پریشانی ہے نہ وہ اس پر سوچتے ہیں۔ یہ طبقہ بھی شدید ذہنی کوفت لیے اگلے جہاں کا مسافر بن کر اس دنیا کو اسٹیشن سمجھ کر سامان باندھے بیٹھا ہے کہ کب گاڑی کی سیٹی بجتی ہے اور وہ طبقہ یہ جا وہ جا۔ ملک و قوم کو یہ بزرگ نہ تو کچھ دے سکتے ہیں اور اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی منصوبہ ہے کہ بہت محنت اور سوچ بچار کر لی ساری زندگی اب ہمت نہیں ہے۔ حکومت وقت کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان بزرگوں کی سوچ کیسے مثبت رکھ کر ان سے مجموعی قومی پیدا وار میں کچھ اضافہ کروایا جا سکتا ہے۔
تیسرا طبقہ 18 سے 60 سال کی درمیانی عمر کے خواتین و حضرات کا ہے جو اس وقت عملی طور پر ملک و قوم کی طرف سے کرتا دھرتا ہیں۔ یہ کم و بیش مجموعی قومی آبادی کا 50 فیصد یعنی اندازاً گیارہ کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے آدھے گھر سے باہر محاذ سنبھالے کھڑے ہیں یعنی مرد حضرات اور باقی قریباً ساڑھے پانچ کروڑ خواتین، بزرگوں اور بچوں جیسے لا تعلق طبقے کی سارا دن ہاؤس وائف یا ورکنگ ویمین بن کر دیکھ بھال بھی کرتی ہیں اور رات کو صاحب خانہ کی خاطر مدارات بھی۔ اس گیارہ کروڑ کے طبقے یعنی آدھی آبادی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کچھ بھی بہتری نہیں آ رہی ایک امید کے سہارے (اور امید کا سہارا بھی تراشنے کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ یہ کام بھی خود صاحب خانہ یا خاتون خانہ نے ہی کرنا ہے ) زندہ رہنا ہے اور سب کو خوشی خوشی زندہ رہنے کی ترغیب دینی ہے۔اس طبقے نے بزرگوں کے آگے بھی چوں چراں نہیں کرنی اور بچوں کو بھی آگے بڑھنے کی امنگ جگانے کی ذمہ داری اسی طبقہ کی ہے۔ اٹھارہ سے ساٹھ سال تک کے افراد چاہے امیر ہوں یا غریب، کارخانہ دار ہوں یا مزدور، بیروزگار ہوں یا بھکاری، دکاندار ہوں یا بیوروکریٹ، تعلیم مکمل کر کے کچھ کرنے کی جستجو میں ہوں یا کسی سرکار کی نوکری کا امتحان دینے کے تیاری میں مگن، ہر شخص، ہر صورت میں ملکی معاشی بدحالی اور مہنگائی سے پریشان ہے۔ کیونکہ موجودہ ملکی معاشی صورتحال سب کا نقصان کر رہی ہے اور مسلسل کر رہی ہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر جہاز کو ڈوبنے سے بچانے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن کوئی ایک شخص بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وہ اس صورتحال کا ذمہ دار ہے یا یہ صورتحال اس کی ذمہ داری ہے۔ حکومت الگ اپنا وقت پورا کرنے کے چکر میں ہے تو پھر 22 کروڑ میں سے ساڑھے اکیس کروڑ کے پاس تو پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا گھر بھی نہیں ہم کیا کریں گے، کہاں سے کھائیں گے قرض کھایا گیا ہے لیکن اتارنا تو میں نے اور میری قوم نے ہی ہے ۔ جب ہر فرد ہی لا تعلق ہو جائے گا تو ملک کیسے چلے گا۔ عالمی برادری میں ہماری کیا عزت ہو گی۔ ان تمام سوالوں کے جواب نہ تو حکومت کے پاس ہیں نہ عوام کے کسی طبقے کے پاس۔ بلکہ سرے سے کوئی اپنے آپ کو جوابدہ ہی نہیں سمجھتا۔ (سابقہ حکومت پچھلے چار سال سے پاور میں ہونے کی وجہ سے خاصی حد تک جوابدہ سمجھی جاتی تھی، اس کی چھٹی کروا کر اس کی جان بھی جوابدہی سے چھڑوا دی گئی ہے۔)بدترین معاشی حالات کے شور شرابے میں عوام کے
تمام طبقات کو امید دلائی رکھنا اور ان کی سوچوں کو مثبت رخ پر متعین رکھنا اس قسم کے جنگی حالات میں حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ملک کو حالت جنگ میں سمجھ کراپنے آپ کو کسی ایک پارٹی یا اتحاد کی حکومت سمجھنے کی بجائے آگے بڑھ کر قومی حکومت کا کردار سنبھال لے اور قوم کے تمام طبقات کو معاشی جنگ میں مثبت طریقے سے استعمال کرے اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کرے۔ حکومت صرف یہ بتا کر فارغ نہیں ہے کہ عوام کو قربانی دینی ہے۔ اجتماعی قربانیاں ہمیشہ کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے کسی لیڈرشپ کے زیر کمان ہی دی جاتی ہیں آخرت میں ثواب کے نقطہ نظر سے نہیں۔ مقصد کس نے واضح کرنا ہے اور لیڈرشپ کس نے مہیا کرنی ہے ، ظاہر ہے حکومت وقت نے۔ یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ قوم کے ہر فرد کو قوم کی بہتری کے لیے کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس اہم ترین معاشی محاذ پر ساری قوم یک جان ہو کر لڑے تو ہی کامیابی کا خیال دل میں لایا جا سکتا ہے۔ خاکسار کے خیال میں ملکی معیشت کو سہارا دینے والے تمام کام حکومت کو جنگی بنیادوں ہر عوام کو ساتھ ملا کر شروع کر دینے چاہیے۔