مزید خبریں

…احوال ایک گھر کا

ایک تحریکی بزرگ کی بیٹی سے میری شادی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی برادری سے باہر تحریک کی بنیاد پر شادی کی تھی۔ ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ میں تحریکی کام کروں گا تو میری اہلیہ میرا ہاتھ بٹائے گی اور میرا گھر اسلام کا ایک خوب صورت گلدستہ ہوگا۔ مگر شادی کے بعد میرا سارا تصور خاک میں مل گیا۔ میری اہلیہ ایم ایس سی ہیں۔ نماز بھی وقت کی پابندی سے ادا نہیں کرتیں۔ میں نے بڑی حکمت سے اسلام کی بنیادی تعلیم سکھانے کی کوشش کی اور حلقہ خواتین کے اجتماع میں بھی بھیجا۔ گھریلو کام میں بھی تعاون کیا مگر بہتری کے بجائے خرابی ہو رہی ہے۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ گھر کا ماحول ناخوش گوار ہو گیا ہے۔ ازدواجی تعلقات بھی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔ میری اہلیہ ملازمت کرتی ہیں‘ وہ ساری تنخواہ اپنی مرضی سے خرچ کرتی ہیں۔ میں نے اس پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ میری اہلیہ کبھی کبھی رات کا کھانا بھی نہیں پکاتیں اور مجھے کھانا خود پکانا پڑتا ہے۔ ان حالات میں میرے سوال یہ ہیں:
1۔مجھے اپنی اہلیہ کے رویے پر خاموش رہنا چاہیے‘ یا ان کو طلاق دے دینی چاہیے؟ کیوں کہ اصلاح کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔
2۔کیا جب بیوی اپنے خاوند کی جائز خواہش پوری نہ کرے‘ تو مرد کو دوسری شادی کر لینی چاہیے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔
3۔اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو کیا ایک فرد اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر گوشہ نشین ہو سکتا ہے؟
جواب: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے بعض بنیادی مسائل اور تضادات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ نے نیک نیتی کے ساتھ یہ چاہا کہ آپ کی شادی ایک تحریکی خاتون سے ہو تاکہ وہ دعوتی کام میںآپ کی معاون ہو سکے۔ ان شاء￿ اللہ اس نیک نیت کا اجر آپ کو اس دنیا میں اور آخرت میں بھی ضرور ملے گا چاہے آپ کی اہلیہ نے آپ کی توقعات پوری نہ کی ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلوص نیت کو ضائع نہیں فرماتے۔ البتہ جو بات تشویش طلب ہے وہ یہ کہ اگر ایک تحریکی گھرانے میں پرورش پانے والی اور ایم ایس سی تک تعلیم یافتہ خاتون کا رویہ وہی ہے جو آپ نے تحریر فرمایا ہے تو ہمارے نظام تربیت میں لازماً کوئی بنیادی خامی ہے۔ اس کا حل دورحاضر کا معروف نعرہ یعنی خواتین کا empowerment نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ اقدار حیات اور مقصد حیات کا ہے جو محض اختیارات کی منتقلی سے حل نہیں ہو سکتا۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ معاشرتی ظلم و استحصال کا دائرہ محض خواتین تک محدود نہیں ہے‘ بعض مرد بھی اس استحصال کا شکار ہیں جو ایک وسیع تر معاشرتی بحران کی علامت ہے۔ اگر اسے نظرانداز کیا گیا تو پھر تباہی کے ریلے کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں اپنے خاندان کے نظام تربیت اور اہل خانہ میں مقصدحیات کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے ان تھک محنت کرنی ہوگی ورنہ تحریکی گھرانے بھی اس لاعلاج مرض سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا مختصر جواب یہ ہے کہ
اگر ایک شخص اپنے خاندانی معاملات میں اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ کر سکے تو انبیا کرام کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے تجرد اختیار نہیں کر سکتا۔ سیدنا نوح اور سیدنا لوط علیہما السلام کے اسوہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمہ وقت اصلاح و دعوت کے عمل میں مصروف رہنے کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ کو تبدیل نہ کر سکے لیکن اس بنا پر نہ کسی جنگل میں جا کر بیٹھ گئے‘ نہ ان سے قطع تعلق کرلیا بلکہ آخر وقت تک صبرواستقامت کے ساتھ اصلاح کی کوشش میں لگے رہے۔ اس لیے نہ تجرد اس کا حل ہے نہ ازدواجی تعلق منقطع کردینا اور نہ خاموش رہنا۔ ایک داعی کو بار بار اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دعوت حق کو پہنچانے کے لیے جو اسلوب اور طریقہ اس نے اختیار کیا ہے اس میں کس طرح مناسب تبدیلی کی جائے کہ بات زیادہ موثر ہو جائے۔ گو قلب کی دنیا کو بدلنا اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہر داعی کو مسلسل اپنے طریق دعوت کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات اصلاح کے لیے اچھے انداز میں زبانی طور پر متوجہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات خاموش رہ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خاموشی مستقل نہیں ہوتی۔ صرف کسی خاص موقع پر حکمت کے پیش نظر خاموش ہونا اور بعد میں اس پہلو کی طرف متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔
آپ کی اہلیہ اگر کام کرتی ہیں تو جو کچھ معاوضہ انھیں ملتا ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور انھیں اسے خرچ کرنے کا پورا حق ہے۔ گھر میں کھانا پکانا آپ دونوں کا باہمی رضامندی کا معاملہ ہے۔ رواجی طور پر ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ایک اچھی بیوی کو لازماً کھانا پکانے کا ماہر بھی ہونا چاہیے اور گویا یہ شوہر کا ایک حق ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک شریعت نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ یہ محض باہمی خوشی کا معاملہ ہے۔ ایک بیوی شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق گھریلو کاموں کے لیے ایک خدمت گار کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔
اگر معاملہ اتنا حد سے گزرگیا ہے کہ آپ طلاق دینے پر غور کر رہے ہیں تو یہ یاد رکھیے یہ جائز کاموں میں سے وہ کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے والا ہے۔ اس لیے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی اہلیہ کو بھی اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے سے بچنا چاہیے اور دونوں کو اپنے طرزعمل کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری شکل جو آپ نے لکھی ہے وہ بلاشبہہ شریعت کی ایک جائز شکل ہے۔ لیکن اس کے بارے میں بھی آپ کی اہلیہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگروہ اپنا طریقہ تبدیل نہیں کریں گی تو آپ مجبوراً عقدثانی پر غور کریں گے تاکہ حالات خراب نہ ہوں اور خاندانی مودت و رحمت میں کمی نہ آئے۔ بعض اوقات حالات سے متاثر ہو کر ہم ایک کام کر بیٹھتے ہیں اور پھر بچوں کا مستقبل اور خود دو گھروں کی ذمے داری کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے۔ اس لیے جو حالات بعد میں پیش آنے والے ہیں ان پر غور کرکے اپنے وسائل کا حقیقی انداز میں جائزہ لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا مفید ہوگا۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بھی جب بظاہر ایک شخص کے سامنے کوئی راستہ نہیں ہوتا‘ اصلاح حال کی پرخلوص کوشش کی جائے تو خاندان میں دوبارہ سکون و محبت قائم ہو جاتا ہے۔ اگر انتخاب گناہ کی زندگی اور جائز شرعی طریقے میں ہو تو لازماً جائز ہی کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن ایسے تمام فیصلے اہل خانہ کو پورے اعتماد میں لے کر ہی ہونے چاہییں تاکہ اتمامِ حجت پوری وضاحت کے ساتھ ہو اور محض ایک قانونی نکتے کے طور پر نہ ہو۔