مزید خبریں

رسائل و مسائل

مردہ پیدا ہونے والا بچہ
سوال: ایک بچہ مردہ پیدا ہوا ہے۔ کیا اس کو غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟
جواب: سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’بچہ پیدا ہونے کے بعد اگر نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ وہ وارث ہوگا اور نہ اس کا ترکہ تقسیم ہوگا‘‘۔ (ترمذی)
امام ترمذیؒ نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اس کی روایت مرفوع (یعنی یہ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے) اور موقوف (یعنی یہ صحابی رسول حضرت جابر کا قول ہے) دونوں طرح سے کی گئی ہے، البتہ اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔ اس کی بنیاد پر بعض اصحاب علم کی رائے ہے کہ مردہ پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی‘‘۔
ایک حدیث سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جس بچے کا اسقاط ہوجائے اس پر نماز پڑھی جائے گی اور ا س کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعاکی جائے گی‘‘۔ (ابوداؤد، احمد)
اس حدیث کی بنا پر بعض فقہا کی رائے ہے کہ بچہ چاہے زندہ پیدا ہو یا مردہ، دونوں صورتوں میں اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ لیکن اول الذکر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دیگر فقہا، جن میں احناف بھی ہیں، کی رائے یہ ہے کہ صرف زندہ پیداہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس حدیث کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس میں ’سقط‘ (اسقاط شدہ) سے مراد وہ بچہ ہے جو وضع حمل کی مدت پوری ہونے سے پہلے پیدا ہوگیا ہو۔
یہ تو بچے کے مردہ پیدا ہونے پر نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی تفصیل ہوئی۔ جہاں تک غسل و تکفین کی بات ہے، ایسے بچے کو غسل دیا جائے گا، کسی پاک صاف کپڑے میں لپیٹ کر، قبر کھود کر اس میں دفن کردیا جائے گا۔
٭…٭…٭‎
کیا مہر میں نقد رقم دینی ضروری ہے؟
سوال: کیا لڑکی کو مہر نقد رقم کی صورت میں دینا ضروری ہے، یا کوئی دوسری چیز مثلاً زیور بھی دیا جا سکتا ہے؟مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے مہر طے ہوا۔ اس صورت میں کیا یہ درست ہے کہ پچاس ہزار روپے نقد دے دیے جائیں اور پچاس ہزار روپے کا زیور دیا جائے، یا ایک لاکھ روپے نقد دینا ضروری ہے۔ اگر زیور دینے کا ارادہ ہے تو بیوی کو ایک لاکھ روپے مہر کے علاوہ الگ سے دینا ہوگا؟
جواب: مہر عورت کا حق ہے۔ قرآن مجید میں نکاح کے وقت شوہر کو اس کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو‘‘۔ (النساء: 4)
مہر کے سلسلے میں شوہر اور بیوی دونوں کی اس پر رضامندی ضروری ہے کہ وہ کتنا ہو؟ اور کس شکل میں ادا کیا جائے؟ مہر میں مالیت رکھنے والی کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے۔ خواہ اس کی مالیت کتنی بھی کم ہو یا زیادہ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا:
’’جاؤ، (مہر میں دینے کے لیے) تلاش کرکے لاؤ، چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
مناسب ہے کہ مہر طے کرتے وقت لڑکی اور اس کے گھر والوں سے استصواب کرلیاجائے، تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مہر میں کیا چیز اور کتنی مقدار میں دی جارہی ہے اور ان کی رضا بھی حاصل ہوجائے۔ ویسے بہتر ہے کہ مہر نقد رقم کی شکل میں ادا کیا جائے، تاکہ لڑکی اس پر آزادانہ تصرف کرسکے اور اس کے ذریعے سے اپنی جو ضرورت پوری کرنی چاہے، کرسکے۔ اگر زیور بھی دینے کا ارادہ ہو تو اسے مہر سے الگ بہ طور تحفہ دیا جائے۔
مہر کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں: ایک مہر معجّل، یعنی جسے نکاح کے بعد فوراً ادا کیا جائے، دوسری مہر مؤجل، یعنی جسے بعد میں ادا کیا جائے۔ صحیح بات یہ ہے کہ شریعت میں مہر مؤجل پسندیدہ نہیں ہے۔ مہر کو نکاح کے وقت ہی ادا کرنا چاہیے، یا بعد میں جلد از جلد اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر مہر مؤجل طے کیا جائے تو بہتر ہے کہ اسے نقد رقم کی شکل میں طے کرنے کے بجائے سونے کی متعین مقدار کی شکل میں طے کیا جائے، تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قدر (value) میں کمی نہ آئے، بلکہ اضافہ ہوتا رہے۔