مزید خبریں

شہادتِ سیدنا عمر فاروقؓ

کعب بن احبارؓ نے (ایک موقع پر سیدنا عمر فاروقؓ سے) کہا کہ میں تو رات میں یہ دیکھتا ہوں کہ آپؓ شہید ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب میں رہتے ہوئے شہید ہو جاؤں؟ پھر دعا فرمائی: اے خداوندا! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور اپنے محبوب کے مدینے کی حدود کے اندر پیغام اجل ارزانی فرما۔
ایک دن خطبۂ جمعہ میں ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغ آیا ہے اور مجھ پر ٹھونگیں مار رہا ہے۔ اس کی یہی تعبیر ہے ہو سکتی ہے کہ اب میری وفات کا زمانہ قریب آ گیا۔ میری قوم مجھ سے مطالبہ کر رہی کہ میں اپنا ولی عہد مقرر کروں۔
یاد رکھو میں موت کا مالک ہوں نہ دین اور خلافت کا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور خلافت کا خود محافظ ہے وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
زہریؒ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے حکم دیا کہ کوئی مشرک جو بالغ ہو، مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں مغیرہ بن شعبہؓ گورنر کوفہ نے آپؓ کو لکھا کہ یہاں کوفہ میں فیروز نامی ایک بہت ہوشیار نوجوان ہے اور وہ نقاشی نجاری اور آہن گری میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ اگر آپ اسے مدینے میں داخلے کی اجازت عطا کریں تو وہ مسلمانوں کے بہت کام آئے گا۔ عمرؓ نے حکم دیا کہ اس کو بھیج دیا جائے۔ فیروز نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی کہ مغیرہؓ نے مجھ پر بہت ٹیکس لگا رکھا ہے، آپؓ کم کرا دیجیے۔
سیدنا عمرؓ: کتنا ٹیکس ہے؟
فیروز: دو درہم روزانہ (سات آنے)
عمرؓ: تمہارا پیشہ کیا ہے؟
فیروز: نجاری، نقاشی اور آہن گری۔
عمرؓ: ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم کچھ بہت نہیں ہے۔
فیروز کے لیے یہ جواب ناقابل برداشت تھا۔ وہ عناد سے لبریز ہوگیا اور دانت پیستا ہوا باہر چلا گیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ امیرالمومنین میرے سوا ہر ایک کا انصاف کرتے ہیں۔ چند روز کے بعد حضرت موصوف نے اسے پھر یاد فرمایا اور پوچھا: میں نے سنا ہے کہ تم ایک چکی تیار کر سکتے ہو جو ہوا سے چلے؟ فیروز نے ترش روئی سے جواب دیا کہ میں تمہارے لیے ایک ایسی چکی تیار کروں گا جسے یہاں کے لوگ کبھی نہیں بھولیں گے۔ فیروز رخصت ہوگیا تو آپؓ نے فرمایا: یہ نوجوان مجھے قتل کی دھمکی دے گیا ہے۔ دوسرے روز ایک دو دھارا خنجر جس کا قبضہ وسط میں تھا، آستین میں چھپایا اور صبح سویرے مسجد کے گوشے میں آبیٹھا۔ مسجد میں کچھ لوگ صفیں سیدھی کرنے پر مقرر تھے جب وہ صفیں سیدھی کر لیتے تھے تو عمرؓ تشریف لاتے اور امامت کراتے تھے۔ اس روز بھی اسی طرح ہوا جب صفیں سیدھی ہو چکیں تو عمرؓ امامت کے لیے آگے بڑھے اور جونہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعۃً گھات میں سے نکل کر چھ وار کیے، جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ دنیا نے اس دردناک ترین حالت میں خداپرستی کا ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ اس وقت جبکہ سیدنا عمرؓ اپنے قدموں پر گر رہے تھے۔ آپؓ نے عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا اور خود وہیں زخموں کے صدمے سے زمین پر گر پڑے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظمؓ سامنے تڑپ رہے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن آخر وہ پکڑا گیا اور اسی وقت اس نے خودکشی کرلی۔
سیدنا فاروقؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ آپ نے سب سے پہلے یہ دریافت فرمایا کہ میرا قاتل کون تھا؟ لوگوں نے عرض کیا فیروز۔ اس جواب سے چہرہ انور پر بشاشت ظاہر ہوئی اور زبان مبارک سے فرمایا: الحمد للہ! میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں، اس لیے شفا ہو جائے گی چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا، اس نے نبیذ اور دودھ پلایا، مگر یہ دونوں زخم کی راہ سے باہر آ گئیں۔ اس سے تمام مسلمانوں پر افسردگی طاری ہوگئی اور وہ سمجھے کہ اب عمرؓ جانبر نہ ہو سکیں گے۔
عمرؓ تنہا زخمی نہیں ہوئے، ایسا معلوم ہوتا کہ پورا مدینہ زخمی ہوگیا ہے۔ خلافت اسلامیہ زخمی ہوگئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ خود اسلام پاک زخمی ہوگیا ہے۔ غم میں ڈوبے ہوئے لوگ آپؓ کی عیادت کے لیے ااتے تھے اور بے اختیار آپ کی تعریفیں کرتے تھے۔ ابن عباسؓ آئے اور بے اختیار آپ کے فضائل و اوصاف بیان کرنے لگے مگر ارشاد فرمایا: اگر آج میرے پاس دنیا کا سونا بھی موجود ہوتا تو میں اسے خوف قیامت سے رستگاری حاصل کرنے کے لیے قربان کر دیتا۔
آخری گھڑیوں میں اپنے صاحبزادے عبداللہؓ کو طلب فرمایا، وہ حاضر ہوگئے تو ارشاد فرمایا: عبداللہ حساب کرو مجھ پر قرض کتنا ہے؟ حساب لگا کر بتایا گیا کہ 86 ہزار درہم۔ فرمایا یہ قرض آل عمر کے حساب سے ادا کیا جائے۔ اگر ان میں استطاعت نہ ہو تو خاندان عدی سے امداد لی جائے۔ اگر پھر بھی ادا نہ ہو، کل قریش سے لیا جائے لیکن قریش کے علاوہ دوسروں کو تکلیف نہ دی جائے۔
سیدنا عمرؓ کے غلام نافعؓ سے روایت ہے کہ عمرؓ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا جبکہ ان کے ایک وارث نے اپنا حصۂ وراثت ایک لاکھ میں بیچا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ عمرؓ کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا جس کو امیر معاویہؓ نے خریدا اور قرض ادا ہوگیا۔ تصفیہ قرض کے بعد بیٹے سے فرمایا: تم ابھی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے التماس کرو عمر چاہتا ہے کہ اسے اپنے دو رفیقوں کے پاس دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے آپؓ یہ پیغام عائشہ صدیقہؓ کو پہنچایا تو وہ بے حد درد مند ہوئیں اور فرمایا: میں نے یہ جگہ اپنے لیے محفوظ کر رکھی تھی مگر آج میں عمرؓ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں جب بیٹے نے آپ کو عائشہ صدیقہؓ کی منظوری کی اطلاع دی تو بے حد خوش ہوئے اور اس آرزو کی قبولیت پر بہ صد خلوص و نیاز شکر ادا کرنے لگے۔
اب کرب وتکلیف کی حالت شروع ہو چکی تھی۔ اسی حالت میں لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: جو شخص خلیفہ منتخب ہو، وہ پانچ جماعتوں کے حقوق کا لحاظ رکھے۔ مہاجرین کا، انصار کا، اعراب کا، ان اہل عرب کا جو دوسرے شہروں میں جا کر آباد ہوئے اور اہل ذمہ کا۔ پھر ہر جماعت کے حقوق کی تشریح فرمائی اور اہل ذمہ اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفیؓ کی ذمے داری کا لحاظ رکھے اور اہل ذمہ کے تمام معاہدات پورے کیے جائیں۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور انہیں طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔
انتقال سے تھوڑا عرصہ پہلے اپنے بیٹے عبداللہؓ سے ارشاد فرمایا: میرے کفن میں بیجا صرف نہ کرنا۔ اگر میں اللہ کے ہاں بہتر ہوں تو مجھے ازخود بہتر لباس مل جائے گا۔ اگر بہتر نہیں ہوں تو بہتر کفن بے فائدہ ہے۔
پھر فرمایا: میرے لیے لمبی چوڑی قبر نہ کھدوائی جائے۔ اگر میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحق رحمت ہوں تو خود از خود میری قبر حد نگاہ تک وسیع ہو جائے گی۔ اگر مستحق رحمت نہیں ہوں تو قبر کی وسعت میرے عذاب کی تنگی کو دور نہیں کر سکتی۔ پھر فرمایا: میرے جنازے کے ساتھ کوئی عورت نہ چلے۔ مجھے مصنوعی صفات سے یاد نہ کیا جائے۔ جب میرا جنازہ تیار ہوجائے تو مجھے جلد سے جلد قبر میں پہنچا دیا جائے۔ اگر میں مستحق رحمت ہوں تو مجھے رحمت ایزدی تک پہچانے میں جلدی کرنی چاہیے۔ اگر مستحق عذاب ہوں تو ایک برے آدمی کا بوجھ جس قدر جلد سے جلد کندھوں سے اتار پھینکا جائے، اسی قدر بہتر ہوگا۔ ان درد انگیز وصایا کے تھوڑے عرصے بعد فرشتہ اجل سامنے آگیا اور آپؓ جان بحق تسلیم ہوگئے۔ یہ (یکم محرم) ہفتے کا دن تھا۔ 23ھ۔ اس وقت عمر 63 برس کی تھی۔ صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ عبدالرحمن، علی، عثمان، طلحہ، سعد بن وقاص اور عبدالرحمن بن عوفؓ نے قبر میں اتارا اور دنیائے اسلام کے اس درخشندہ ترین آفتاب کو آقائے انسانیت کے پہلو میں ہمیشہ کے لیے سلادیا گیا۔