مزید خبریں

ڈراموں اور فلموں کی وجہ سے لڑکیاں بھاگ کر شادیاں کررہی ہیں

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ڈراموں اور فلموں کی وجہ سے لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کر رہی ہیں‘ موبائل فون، مخلوط تعلیمی نظام نے نوجوانوں کو بے راہ روی پر گامزن کردیا‘ خاندان بطور ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ والدین نے بچوں کو وقت دینا چھوڑ دیا‘ خواتین کی آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے ‘ ہمیں مغربی ثقافت کو مسترد کرنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کی رہنما سابق رکن قومی اسمبلی و اسلامی نظریاتی کونسل کی سابق رکن، انٹرنیشنل ویمن یونین کی صدر محترمہ سمیحہ راحیل قاضی، مجلس احرار کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالطیف خالد چیمہ اور بزم اقبال کے ڈائریکٹر ریاض احمد چودھری نے ’’جسارت‘‘کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کیوں کر رہی ہیں؟‘‘ محترمہ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کا ادارہ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے‘ بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہو رہی ہے‘ والدین نے بچوں سے لاتعلق ہو کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے‘ ان کے پاس بچوں کو برے بھلے کی تمیز سکھانے کا وقت ہی نہیں ہے جن خاندانوں میں والدین بچوں کو وقت دیتے اور ان کی نگرانی کرتے ہیں وہاں بچوں کا طرز عمل مثبت اور مختلف ہوتا ہے‘ مخلوط ماحول اور مرد و زن کی مشترکہ محافل بھی معاشرتی تباہی اور بچیوں کو بے راہ روی کی جانب گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں‘ آج کل تعلیمی اداروں میں نوجوان بچے بچیوں کی مشترکہ کلاسیں صبح سے رات گئے تک جاری رہتی ہیں‘ اس دوران انہیں کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ جو چاہیں کرتے رہیں‘ سب سے بڑھ کر موبائل فون نئی نسل کے بگاڑ میں کردار ادا کر رہا ہے جس پر نہ کوئی چیک ہے نہ کسی کا کوئی اختیار‘ اس چھوٹی سی چیز نے پورے معاشرے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے اور بچوں کی تربیت میں بڑوں کا کردار باقی نہیں رہنے دیا۔ عبدالطیف خالد چیمہ نے کہا کہ نئی نسل کی بے راہ روی اور بچیوں کے گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے کے رجحان کے پس پشت سیکولر انتہا پسندی، آزاد خیالی، حکومتی پالیسیوں اور این جی اوز کا بہت زیادہ عمل دخل ہے جو عالمی سامراج کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں‘ اگر ہم ان برائیوں سے معاشرے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قیام پاکستان کے اصل مقاصد کی طرف رجوع کرنا ہو گا ملک میں اسلامی نظام عفت و عصمت رائج کرنا اور بہنوں، بیٹیوں کو یورپی کلچر سے بچا کر اجتماعی سطح پر غیر ملکی ایجنڈے کو مسترد کرنا ہو گا مگر افسوس کہ موجودہ حکومت بھی سابق حکومتوں ہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے حالانکہ اس میں مذہبی طبقے کے لوگ بھی موثر طور پر شامل ہیں ‘ہم اپنی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے گزارش کریں گے کہ وہ اسلام کے نظام عفت و عصمت کو رائج کرنے اور معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے حکومت میں رہ کر اپنا موثر کردار ادا کریں یا پھر حکومت سے باہر آ جائیں۔ ریاض احمد چودھری نے کہا کہ بچیوں کے گھروں سے بھاگنے کے رجحان میں سماجی ذرائع ابلاغ کا کردار بہت نمایاں ہے اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کا فقدان، والدین کی ان سے دوری، دین سے واقفیت کی کمی اور حکومت کا ذرائع ابلاغ کے کنٹرول میں اپنا کردار ادا نہ کرنا سماجی برائیوں کے فروغ اور بچوں وبچیوںکے غلط راستے پر چلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘ ڈیجیٹل میڈیا نے تو تمام حدیں پھلانگ لی ہیں اس پر نگرانی کا کوئی نظام موجود نہیں جس کے سبب بچوں کو خرابی کا عنصر جلد اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘ ڈرامے، بلاکس اور مختصر فلمیں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں، دعا زہرا کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے‘ بچے وقت سے پہلے بڑے ہو رہے ہیں‘ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل میڈیا مفید ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں شعور، تعلیم، خواندگی کی شرح اور قوانین پر عمل درآمد کی صورت حال خاصی بہتر ہے جب کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ میڈیا شتر بے مہار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے منفی اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں‘ عورتوں کی آزادی کے نام پر ایک خاص طبقہ بے راہ روی پھیلا رہا ہے جس کی روک تھام کا کوئی انتظام نہیں‘ نئی نسل کو بے حیائی کے سیلاب سے بچانے اور غلط سمت جانے سے روکنے کے لیے والدین، معاشرے اور حکومت کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور سب کو مل کر بچوں کی مثبت سمت، تعلیم و تربیت کا موثر اہتمام کرنا ہو گا تاکہ نئی نسل کو تباہی سے بچایا جا سکے۔