مزید خبریں

شاہی نظام کو تحفظ دینے کے لیے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردیا گیا

 

کراچی (رپورٹ :محمد علی فاروق) شاہی نظام کو تحفظ دینے کے لیے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردیا گیا‘ سعودی عرب اور یو اے ای نے جنرل السیسی کے ساتھ مل کر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا‘ نائن الیون کے بعد جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے دہشت گرد ی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا‘ شاہی خاندان اپنے ممالک میں مغربی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں‘ اسلامی نظریاتی ریاست کا مطالبہ دنیا بھرمیں جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر سابق سینیٹر پرو فیسر محمد ابراہیم خان، بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر اور معروف تجزیہ کار سینئر صحافی ڈاکٹر سید نواز الہدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیاکہ ’’سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم کیوں قرار دیا ہے؟‘‘ محمد ا براہیم خان نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کافیعرصے سے اپنے آپ کو اللہ کے دین سے فاصلے پر رکھنے کی کوشش کرتا آرہا ہے‘ بے حیائی کا ایک طوفان بدتمیزی وہاں عرصہ دراز سے برپا ہے‘ مغرب اور امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے‘ سعودی عرب میں جب سے محمد بن سلمان ولی عہد بننے ہیں ان کی یہ کوشش ہے کہ سعودی عرب کا اسلام سے رشتہ ناطہ توڑ دیا جائے‘ نیوم کے نام سے سعودی عرب کے شہر تبوک میں ایک کثیرالملکی سرحدی شہر آباد کیا جا رہا ہے‘ یہ شہر مشترکہ طور پر سعودی عرب، اردن، اسرائیل اور مصر کے سرحدی علاقوں پر مشتمل ہوگا‘ اس شہر میں مغرب کی ثقافت ہوگی‘ یہ محمد بن سلمان کی پالیسی ہے‘ اسی پر وہ گامزن ہیں‘ اس شہر کا اعلان سعودی ولی عہد نے ریاض میں انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں کیا تھا‘ وہ بڑے مزے لے لے کر اور بڑی خوشی سے اس بات کا ذکر کر رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ بہت جلد یورپ کی طرح ہوجائے گا‘ وہ سعودی عرب کو بھی مغرب اور امریکا کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں‘ اس کے اثرات سعودی عرب میں مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں‘ عرب کے شاہی خاندانوں نے امریکا اور مصری فوج کے ساتھ مل کر اخوان المسلون کی حکومت کو گرانے کی سازش کی اس مقصد کے لیے جنرل عبدالفتاح السیسی کو امداد دیتے رہے‘ مصر کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعے منتخب حکومت کو ہٹا یا‘ بعدازاں مصر سمیت متحدہ عرب امارات اور دوسری خلیجی ریاستوں میں اخوان المسلمون کے حامیوں کو گرفتار کیا گیا اِس آڑ میں ہر اُس شخص کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جو خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے طرزحکومت کا مخالف خیال کیا جاتا تھا ‘ اس طرح اخوان المسلون کے لوگوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے گئے‘ ان کو قتل کیا گیا‘ طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ مصر کے مسلم اسکالر شیخ حسن البنا نے تحریک اخوان المسلمون کا آغاز 1923ء میں کیا تھا مگر 1928ء میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی‘ اس کا منشور اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا‘ اس جماعت نے عرب قوم پرستی کے خلاف آواز اٹھائی اور اسلامی بھائی چارے کا نعرہ لگایا،مصری حکومت نے برطانوی اور یہودی مفادات پر حملوں کے الزامات میں1948ء میں اخوان المسلمون پر پابندی عاید کر دی جس کی پاداش میں جماعت کے بہت سے اراکین کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور مسلم اسکالر سید قطب جیسے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا‘ عرب دنیا کے بعض ملکوں میں عرب اسپرنگ کے نام سے اٹھنے والی سیاسی بیداری کی تحریکوں کے پس پشت بھی اخوان المسلمون کو محسوس کیا گیا‘ خلیجی ممالک کی تنظیم گلف کارپوریشن کونسل میں قطر نے اخوان المسلمون اور مصر کے صدر محمد مرسی کی بھر پور حمایت کی جس کی پاداش میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلا لیے‘ ترکی کے صدر طیب اردوان نے بھی اخوان المسلمون کی حمایت اور مد د کی، اخوان المسلمون کی پالیسی تھی کہ مصر سے مغرب کی طرف جھکا ؤ کا خاتمہ کیا جائے اور مصر میں ایک اسلامی جمہوری نظام قائم کیا جائے‘ تحریک اخوان المسلمون سے 2011ء میں پابندی ہٹائی گئی جس کے بعد اسی سال فوجی آمر حسنی مبارک تحریر اسکوائر قاہرہ میں عوامی احتجاج کے بعد استعفاد ینے پر مجبور ہوئے بعد ازاں انتخابات کے ذریعے سے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو جون 2012ء میں مصر کا پہلا جمہوری صدر بنا دیا گیا‘ عرب کے شاہی خاندانوں نے محسوس کیا کہ جمہوریت کی ہوا ان کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتی ہے‘ 3 جولائی 2013ء میں مصر کے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کا ملکی فوج نے عرب اشرافیہ کے ساتھ مل کر تختہ الٹ دیا اور انہیں گرفتار کرلیا جبکہنومبر 2014ء میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، حالانکہ اس بات کا کو ئی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے کہ اخوان المسلمون ایک دہشت گرد تنظیم ہے ۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ محمد مرسی نے اقتدار میں آکر جلد بازی کی اور کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے عرب اشرافیہ اور فوج میںکھل بلی مچ گئی ، ان کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے عرب اشرافیہ نے مختلف قسم کے بحران پیدا کیے‘ اخوان المسلمون معاشرے سے بدعنوانی، اقرا پر وری اور صحیح اسلامی اصولوں پر ریاست کا قیام چاہتی تھی جس کی اس کو بھرپور عوامی حمایت بھی حاصل تھی‘ دیکھا جائے تو اسی طرح جنوبی افریقی نیشنل کانگریس کے نیلسن روہیلا مینڈیلا کو بھی نسلی امتیاز کے خلاف بہت لمبی جنگ لڑنی پڑی انہیں 27 سال تک پابند سلاسل رکھا گیا اوراس تنظیم کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا ،اسی طرح فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن بھی امریکا اور اسرائیل کے نزدیک دہشت گرد تنظیم تھی مگر جب 1993ء میں صلح ہوگئی تو پھر فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل نے پی ایل او کو تسلیم کر لیا‘ یہ کوئی بات نہیںہے کہ کسی ایسی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے جو اپنے بنیادی حقوق کی خاطر لڑ رہی ہو‘ دراصل یہ رجحان11ستمبر 2001ء کے بعد زیادہ ہوا کہ دہشت گرد ی کو اپنے مفاد میں استعمال کیا جا نے لگا‘ عرب ممالک کی تنظیم گلف کارپوریشن کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر سمیت اردن ، عراق اور مصرکی حکومتی نمائندوں نے شرکت کی تو وہاں عالمی جمہوریت کا خود ساختہ چیمپیئن امریکا جنرل السیسی کی آمریت کے ہاتھوں عوامی حقوق کی پامالی پر خاموش رہا‘ یہی تو امریکا اور مغرب کا دوغلا پن ہے‘ یہ تنظیم عرب شاہی نظام کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہے اسی لیے اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید نواز الہدی نے کہا کہ 17 ویں صدی کے بعد مسلم ریاستوں کی تشکیل خاص منصوبے کے تحت کی گئی‘ جہاں اسٹیبلشمنٹ کے نام سے ایک خاص حکمران ٹولے کو جنم دیا گیا جو آمریت کے بھیس میں نامعلوم جمہوریت کی ملمع کاری کرکے اپنی ریاستوں پر حکمرانی برقرار رکھتا ہے اور آج بھی انہی کی حکمرانی برقرار ہے‘ اس ڈگر پر چلنے والی ریاستیں کسی صورت ایسی پارٹی کو برداشت نہیں کرسکتیں جوکہ حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کرے جو بھی ریاست بادشاہت قائم رکھ کر سیکیولراور لبرلز نظریات کو تحفظ فراہم کرے تو جمہوریت کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والی عالمی طاقتیں ایسی حکومت کو مکمل تحفظ اور تعاون فراہم کرتی ہیں‘اسلامی نظریاتی ریاست کا مطالبہ تو دنیا میں خفیہ طور پر ایک جرم تصور کیا جاتا ہے اور اخوان المسلمون کی طویل جدوجہد سے مشرق وسطی کی طاقتور ریاستیں خوف کی شکار چلی آرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے دہشت گرد قرار دیکر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔