مزید خبریں

بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنا مزدور دشمنی ہے‘ ناصر منصور

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرہ خان، ریاض عباسی اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت دوست محنت کش بلدیاتی امیدوار الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ میں دوسرے مرحلے میں ہونے والے انتخابات موخر کرنے کے فیصلہ کی پر زور مذمت کی ہے۔ ان رہنمائوں نے کہا کہ کمیشن کا موسم کو جواز بنا کر اچانک انتخابات ملتوی کرنا اس کی جانب داری اور غیر جمہوری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی الیکشن کمیشن کی زیرِ نگرانی شدید بارش کے دنوں میں پنجاب میں بیس صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں لیکن سندھ کے عوام کو ایک سازش کے تحت جمہوری حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ سندھ میں بلدیاتی نظام کو طویل عرصے کے لیے معطل رکھا جائے جس کے نتیجے میں سندھ مزید تباہی اور بربادی کا شکار ہو جائے گا۔ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ بعض سیاسی گروہ جو خود ان انتخابات کے التواء کے لیے عدالتوں میں گئے آج انتخابات کے ملتوی ہونے کے خلاف واویلا مچا رہے ہیں جس سے ان کا دوغلا پن ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں جب انتخابات میں حصہ لینا دولت مند طبقات اور ان کی نمائندہ پارٹیوں تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ کراچی شہر کے مختلف علاقوں سے ہم محنت کش بلدیاتی انتخابات میں نہایت ہی نا مساعد حالات میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے تھے اور ایک سیاسی متبادل کے طور پرعوام سے ووٹ کے طلب گار تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے اچانک انتخابات ملتوی کرنے کے اعلان نے محنت کش امیدواروں کی انتخابی مہم پر ڈرون حملہ کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن انتخا ب ملتوی کرنے کا غیر جمہوری اعلانیہ واپس لے اور انتخا ب وقت پر کروانے کو یقینی بنائے۔ ہم مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والے امیدوار محنت کش جمہوری اور سیاسی متبادل کے طور پر کراچی شہر کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ڈھائی کروڑ سے زائد انسانوں کا شہر کراچی جو اپنی شہری حکومت کے قیام کے ایک سو دس برس گزارنے کے بعد بھی بدترین سماجی، سیاسی، انتظامی اور ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ کراچی میں شہری سہولیات کا خطرناک حد تک فقدان شہریوں کے غصے اور افسردگی کو اس لیے بھی شدید کر دیتا ہے کہ یہ شہر ملک کے دیگر شہروں کی بہ نسبت ٹیکسوں اور آمدن کی مد میں اتنا کچھ دیتا ہے کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں آبادی کا دباؤ عام شرح کے برعکس بہت تیزی سے بڑھا ہے لیکن اسی تناسب سے ترقی نہیں ہو رہی۔ شہر کو اس کی آبادی کے تناسب سے وسائل کی فراہم کبھی بھی ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ شہر کی نمائندگی کے دعوی داروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی بلکہ شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمع نظر رہا۔ پارک ، باغ ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انہوں نے اسکول ، کالج کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی ،پانی کے ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا۔ شہر کا تمام سیوریج اور کچرا قدرتی آبی گذر گاہوں میں پھینک کر قدرتی ماحول پر مجرمانہ حملہ کیا گیا ، شہر کے دو دریا لیاری اور ملیر کے علاوہ ساٹھ سے زائد چھوٹے بڑے ندی نالے جو سمندر میں برساتی پانی گرانے کا قدرتی ذریعہ ہے انہیں گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ جبکہ سمندر کی جانب پانی کی نکاسی کے چار بڑے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پانی کے راستے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ شہر کے چالیس فی صد حصہ پر کنٹونمنٹ بورڈز ، ڈی ایچ ایز اور وفاقی اداروں کا قبضہ ہے اور رہی کسر صوبائی حکومت نے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے شہری ترقی کے اہم اداروں پر قبضہ کر کے شہری حکومت کو مفلوج کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر دیے ہیں۔ شہر کے مسئلہ کا دائمی حل ایک حقیقی نمائندہ جمہوری ، بااختیار شہری حکومت میں ہی مضمر ہے۔

p