مزید خبریں

جہیز کی لعنت عام ہونیکی وجہ سماج کا انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دینا ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) جہیز کی لعنت عام ہونے کی وجہ سماج کا انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دینا ہے‘حکومتی کمزوری کے باعث معاشرے میں جہیز کی لعنت عام ہوتی جا رہی ہے ‘ جہیز کی لعنت ایک مہذب قسم کی بھیک ہے جس کو رسم و رواج کا لبادہ پہنا کر ہمارا معاشرہ قبول کر رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار 2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں جہیز بل پیش کرنے والی جماعت اسلامی خیبر پختونخوا حلقہ خواتین کی رہنما و سابق رکن صوبائی اسمبلی راشدہ رفعت، مسلم لیگ فنکشنل وگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما و رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی، تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی ثانیہ کامران اور ویمن لائرز ایسوسی ایشن کی سی ای او اور ہائی کورٹ کی سینئر قانون دان بیرسٹر زہرہ سحر ویانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں جہیز کی لعنت عام کیوں ہے؟‘‘ راشدہ رفعت نے کہا کہ حکومتی کمزوری کے باعث معاشرے میں جہیز کی لعنت عام ہوتی جا رہی ہے اور ابھی تک جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے میں ہم ناکام ہیں‘ ہمارا سماج انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دینے لگا ہے جس کی وجہ سے جہیز کی لعنت جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی ہے‘ بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی بتدریج اس ہندووانہ رسم کو اپنا لیا، اب مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین اور پھر لین دین سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ اور اس سے بھی آگے گزر کر جہیز کے علاوہ جوڑے کے نام پر لڑکوں کی طرف سے رقم کے مزید مطالبات کا سلسلہ چل پڑا ہے‘ یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل ہی برعکس ہے‘ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر اور دعوتِ ولیمہ کی ذمّے داری شوہر پر رکھی ہے اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمّے داری سے دور رکھا ہے‘جہیز وہ رسم ہے جس پر اخراجات سب سے زیادہ اٹھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں‘ عصرِ حاضر میں جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ بن چکی ہے‘ ایسا رشتہ جو مال و دولت کی بنا پر وجود میں آئے اس پر کیسے پیار اور محبت کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے؟ معاشرے میں جہیز کی لعنت ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ بھی وہی کر رہا ہے جو کوئی کم پڑھا لکھا فرد کرتا ہے‘ شادی کے نام پر دکھاوا اور نمود و نمائش کا بازار گرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں جہیز کے حوالے سے منظور ہونے والے قانون پر5 سال گزرنے کے بعد بھی کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے‘حکومت اپنی طاقت دکھانے سے قاصر نظر آتی ہے‘ جہیز سمیت دیگر رسومات سے سب سے بڑا نقصان معاشرے میں طبقاتی فرق بڑھنے کی صورت میں ہو رہا ہے‘ آسان نکاح کا تصور معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے‘ شادی بیاہ میں غیر اسلامی رسم و رواج کو ختم کرنے کے لیے علما و دانشوروں کے ساتھ ساتھ ہر باشعور شہری کو آگے آنا چاہیے‘ غیر ضروری رسومات کو ترک کرکے شادیوں کو آسان اور ان کے بجٹ میں کمی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہیز کی وجہ سے اکثر خاندانوں کو پریشان کن حالات کا سامنا رہتا ہے‘ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو جہیز کی استطاعت نہیں رکھتے لہٰذا ایک یونیفارم حکومتی پالیسی ہی ان سماجی مسائل کو ختم کر سکتی ہے‘ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس بات کو سمجھیں اور قوانین پر عمل درآمد کرائیں‘ پاکستان میں 1976ء سے جہیز اور دلہن کو تحائف دینے کے حوالے سے قانون موجود ہے‘ اگر جہیز کی برائی کو چھوڑ کر نکاح کو آسان نہ کیا گیا تو معاشرہ مزید بے راہروی کا شکار ہو جائے گا‘ حکومت کو معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے خاص موثر اسکیم کا اجرا کرنا چاہیے۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ جہیز کی لعنت ایک مہذب قسم کی بھیک ہے جس کو رسم و رواج کا لبادہ پہنا کر ہمارا معاشرہ قبول کر رہا ہے‘ جہیز کے نام پر کی گئی ڈیمانڈ کو پورا کرتے غریب آدمی کی کمر دہری ہو جاتی ہے‘جہیز نہ ہونے کی بنا پرغریب کی بیٹی کے سر میں چاندی واضح ہو جاتی ہے لیکن معاشرے میں چھپے اس درد کا مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے‘ جہیز کی روایت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ‘ جہیز میں دی جانے والی اشیا میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے‘ اس کے ساتھ ان اشیا کی نمائش کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اہل محلہ اور رشتہ داروں کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ جہیز میں دیے جانے والے سامان کو دیکھ لیں اس کام میں عموماً خواتین زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور نسبتاً ان کا رجحان اور یادداشت گھریلو استعمال کی چیزوں اور کپڑوں کے پرنٹ اور کلر وغیرہ کے بارے میں تیز ہوتی ہے کہ کب، کہاں اور کس موقع پر کس نے کیا چیز لی یا پہنی تھی۔ اس کو ذہن میں رکھ کر خواتین اپنی بیٹیوں کو یا لڑکیاں خود زیادہ جہیز کا مطالبہ کرتی ہیں کہ کم از کم فلاں سے تو زیادہ سامان ہونا چاہیے کہ خاندان اور معاشرے میں ہماری عزت ہے اپنی ناک کو اونچا کرنا کے لیے بوڑھے باپ اور جوان بھائی کی کمر کتنی جھک رہی ہے‘ جہیز کے مطالبے پورا کرنے کے لیے سود ی قرضے تک اٹھانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ثانیہ کامران نے کہا کہ معاشرے میں شادی کے نام پر دکھاوا اور نمود و نمائش کا بازار گرم ہے‘ جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی ذمے داری معاشرے کے ہر طبقے پر ہے‘جن میں اساتذہ، وکلا، اراکین پارلیمنٹ، علما، فنکار، صحافی، سول سوسائٹی اور دیگر افراد شامل ہیں‘ ان کو جہیز کے خلاف مستقل بنیادوں پر تحریک چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم جہیزکے عفریت سے جان چھڑا سکیں‘ جہیز کی اس مانگ کو اگر ہم ’’جبری بھیک‘‘ اور مانگنے والے کو ’’ غیرت سے ناآشنا بھکاری‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا‘ صدیوں سے مروج اس بے جا رسم جہیز کا خاتمہ یقیناً اتنی آسانی سے نہیں ہو گا لیکن اگر ہم اس کے خاتمے کے لیے خلوص کے ساتھ کمرِ بستہ ہوجائیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ مددِ خدا شامل نہ ہو اور اس طرح ہم کچھ عرصے میں اپنی آنے والی نسلوں کو اس بے جا رسم سے نجات دلا سکیں گے ۔ زہرہ سحر ویانی نے کہا کہ معاشرے میں جہیز کا رواج اورلڑکیوں کی شادیوں کے مسائل بہت زیادہ ہوگئے ہیں اس وقت پاکستان میں1کروڑ سے زاید ایسی لڑکیاں ہیں جنکی عمر20سے35سال تک کی ہیںاور وہ شادیوں کے انتظار میں ہے‘ پاکستان میں ہر سال تقریباً 2 ہزار خواتین کم جہیز لانے کی وجہ سے موت کا سامنا کرتی ہیں‘معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ جہیز کی رسم کے سبب نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں اور نہ جانے کتنی جگہ جہیز کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے‘ اس حوالے سے بے شمار حادثات اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہماری خواتین کو مارنے پیٹنے کے علاوہ انہیں زندہ جلا کر بھسم کر دیا گیا ہے‘ جہیز خوری کا ٹرینڈ دراصل ہمارے معاشرے کی رگوں میں کینسر کی سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘اس کٹھن دور میں لڑکے والوں کا جہیز کا مطالبہ والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔