مزید خبریں

عمران خان پر آئین توڑنے کے الزام میں آرٹیکل 6 کا اطلاع نہیں ہوتا

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) عمران خان پر آئین توڑنے کے الزام میں آرٹیکل 6 کا اطلاق نہیں ہوتا‘چیئرمین پی ٹی آئی نے آئین نہیں توڑا ‘ خلاف ورزی اور آئین توڑنے میں فرق ہے‘ شہباز حکومت 3 ماہ میں چیئرمین نیب نہیں لگا سکی تو غداری کیس کیسے بنائے گی‘ تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے آرٹیکل 5 کو آئین کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہارممتاز قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، قانونی ماہر قوسین فیصل مفتی، تجزیہ کار اعجاز احمد، تجزیہ کار مظہرطفیل، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق نائب صدر سجاد سرور اور سابق ایگزیکٹو ممبر عمارن شبیر عباسی اور فیڈریشن آف رئلٹرز پاکستان کے رہنما اسرار الحق مشوانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عمران خان پر آرٹیکل6 کا اطلاق درست ہوگا؟ ‘‘ صلاح الدین مینگل نے کہا کہ عمران خان پر آرٹیکل 6 کا اطلاق مشکل ہے‘ عدالت عظمیٰکے 5 رکنی لارجر بنچ نے اپنیفیصلے میںآئین کے آرٹیکل95 کی شق 2 کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند قرار دیا ہے‘ اس لیے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے اور جب وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد موجود ہو تو وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتا اس لیے وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی کالعدم قرار گئی دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 69 کی شق 1 پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ دیتی ہے مگر پارلیمانی کارروائی میں آئین کی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ قوسین فیصل مفتی نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ بھی لکھا جس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر، صدر اور وزیراعظم نے3 اپریل کو آرٹیکل5 کی خلاف ورزی کی‘ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے لے کر صدر اور وزیراعظم کی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک کی کارروائی تحریک عدم اعتماد ناکام کرنے کے لیے تھی اور اس سے عوام کی نمائندگی کا حق متاثر ہوا‘ آرٹیکل 5 آئین سے وفاداری کا سبق دیتا ہے لیکن اسے آئین کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا گیا اس لیے آرٹیکل5 کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل6 کی کارروائی کا راستہ موجود ہے‘ پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ آیا ان اقدامات پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہآئین کی خلاف ورزی اور آئین توڑنے میں فرق ہوتا ہے‘ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مقدمہ بنا تو عمران خان کے حامیوں کا ردعمل خطرناک ہوسکتا ہے اور عسکری اداروں کے لوگوں میں بھی عمران خان کی پوزیشن بہت بہتر ہے لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنا تو پھر یہ سلسلہ چل نکلے گا‘ یہ حکومت ابتدائی چند ہفتوں میں بنیادی فیصلے کرلیتی تو فائدہ ہوتا مگر اس نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور جو حکومت 3 ماہ میں چیئرمین نیب نہیں لگا سکی وہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ کیسے بنائے گی۔ مظہرطفیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اندر اتنی سیاسی قوت نہیں کہ وہ عمران خان پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کرے‘جو فوجی نرسری سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں‘ عمران خان موجودہ تمام سیاست دانوں سے اس حوالے سے بہت بہتر ادراک رکھتے ہیں‘ انہیں دوران تربیت تمام گر سکھائے گے جبکہ باقیوں کو صرف کسر نفسی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے‘ یہ سب نالائق طالب علم ہیں اور عمران خان سب سے زیادہ ہوشیار، عیار اور عقلمند طالب علم ثابت ہوا ہے۔ سجاد سرور نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات میں آرٹیکل6 لاگو کرنے کے حوالے سے حکومت کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے چاہئیں۔ عمارن شبیر عباسی نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئینی معاملہ تھا لیکن اس دوران جو کچھ ہوا اس کے بھی ملکی آئین اور سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات پڑے ہیں۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ اعلیٰ عدالتیں بار بار یہ باور کراتی ہیں کہ وہ پارلیمانی امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتیں اس لیے سیاست دانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کا حل آپس میں بات چیت کے ذریعے یقینی بنائیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے رہنما اصول وضع کرنے چاہئیں جو مستقبل میں ایوانوں کی کارروائی چلانے کے لیے مشعل راہ بنیں‘ آئین کے تحت اگر کسی کے خلاف آرٹیکل6 کے تحت کارروائی مقصود ہو تو اسے وفاقی حکومت کے نوٹیفائیڈ افسر ہی شروع کرسکتا ہے‘ وفاقی نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اختیار سیکرٹری داخلہ کے پاس ہے۔