مزید خبریں

…خدمت خلق کے معنی

عام طور پر ہم کسی بھی لفظ یا اصطلاح کے وہی معنی سمجھتے ہیں جو ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جانتے ہوں‘ یا جن معنوں میں ہم نے اس لفظ کو استعمال ہوتا دیکھا اور سنا ہو۔ اس لحاظ سے خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک شعبے کا نام آتا ہے۔ اس کے ساتھ عموماً قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تصویر بھی ذہن کے پردے میں آتی ہے۔ اسی طرح دوائیں اور ڈاکٹر لے کر چلتی ہوئی گاڑیاں‘ مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں‘ میت گاڑیاں… یہ بھی خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسی جگہ کا تصور ذہن میں اْبھرتا ہے جہاں پر محتاج و مساکین اور غریب طالب علم درخواستیں لے کر جائیں اور ان کی امداد کر دی جائے۔
یہ سارے معنی ہم نے اپنے تجربے اور مشاہدے سے اختیار کیے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں لیکن یہ خدمت خلق کے حقیقی اور مکمل تصور کا احاطہ نہیں کرتے۔
خدمت خلق کا جامع تصور
خدمت خلق کا تصور بہت وسیع اور جامع ہے۔ اس کے لیے کسی دفتر یا شعبے کا قیام بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ گاڑیوں میں ڈاکٹر دوائیں لے کر‘ یا کسی مقام پر بیٹھ کر مریضوں کا معائنہ کریں‘ یا پھرمریضوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میت کو قبرستان تک پہنچا دیا جائے‘ یا غریب غربا سے درخواستیں وصول کر کے ان کی مالی اعانت کی جائے۔ درحقیقت خدمت خلق کا جو تصور ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور دین اسلام سے معلوم ہوتا ہے‘ وہ ان سب سے کہیں زیادہ وسیع اور اس سے بہت مختلف ہے۔
اگرچہ یہ چیزیں اس کے اندر شامل ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ خدمت خلق کے اس جامع تصورکا ایک بڑا مختصر اور محدود حصہ ہے جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو دی ہے۔
خدمت خلق… یہ لفظ اللہ اور اس کے رسولؐ نے صرف ان معنوں میں استعمال نہیں کیا کہ انسانوں کی خدمت کی جائے بلکہ ’’خلق‘‘ کے اندرانسان بھی شامل ہیں اور جانور بھی۔’’خلق‘‘ میں تو خدا کی ہر مخلوق شامل ہے۔ ان کے ساتھ سلوک اور برتائو کی ہدایات قرآن مجید میں بار بار آئی ہیں اور نبی کریمؐ کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ اگر ہم ایک دفعہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خدمت خلق کو اپنے دین میں اور اپنی تعلیمات میں کیا مقام دیا ہے‘ تو یہ بات خود بخود ہم پر واضح ہو جائے گی کہ خدمت خلق کا کام صرف شعبے قائم کرنے‘ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے‘ یا شفاخانے بنانے اور سفری شفاخانے دوڑانے سے پورا نہیں ہو سکتا… اس لیے کہ جس کام کو اتنا عظیم الشان مقام دیا گیا ہو‘ وہ صرف اتنی سی بات تک محدود نہیں ہو سکتا!
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے لیے کچھ کرنے کا ذکر ایمان کے بعد سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ جہاں ایمان کا ذکر آئے گا وہاں پر اللہ کی راہ میں ’’دینے‘‘ کا بھی ذکر آئے گا۔ دینے کے لیے کہیں ’’ینفقون‘‘ کا لفظ آئے گا کہ وہ خرچ کرتے ہیں۔ کہیں دینے ہی کا لفظ آئے گا‘ اَتٰی یعنی اس نے دیا۔ اور کہیں اس دینے کی جو بہت ساری صورتیں ہیں‘ اْن کا ذکر آئے گا‘ مثلاً کھانا کھلانا‘ کھانا کھلانے کی ترغیب دینا اور مل جل کر کھانا کھانا وغیرہ۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس کا ذکر ایمان کے فوراً بعد ہوتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہے بلکہ ایمان کا ایک حصہ ہے۔
آپ سورہ البقرہ میں پڑھنا شروع نہیں کرتے کہ ایمان کے بعد اقامت صلوٰۃ کا‘ جو ایمان کی عملی صورت ہے‘ تذکرہ ہے‘ اور اس کے بعد ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کی صفت کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ’’رزق‘‘ سے مراد محض مال نہیں ہے بلکہ رزق کا لفظ اللہ تعالیٰ نے مال کے علاوہ ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا ہے جو اس نے ہمیں بخشی ہے۔ ہمارا وقت بھی اس کا رزق ہے‘ عمر بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے ‘ اور دل و دماغ بھی اس کے دیے ہوئے رزق کے اندر شامل ہیں۔ ہمارا جسم بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے۔ غرض ہم کو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے۔ صرف مال ہی رزق نہیںہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ رزق کی شکل میں اللہ نے دیا ہے‘ اس کو خرچ کرتے ہیں۔ اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ موثر اور زوردار تصویر قرآن مجید میں آخرت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کی کھینچی گئی ہے جو جہنم میں ڈالے جائیں گے‘ جن کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ فرمایا:
اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دْنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی! آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو ستّر (70) ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارغم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقہ: 25-36)
یہاں بھی بس دو ہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی ایمان نہ لانا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا۔
اسی طرح سورہ المدثر میں ہے کہ جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے ان سے اصحاب الیمین‘ جو جنت میں ہوں گے‘ پوچھیں گے:
’’تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ہے؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘ اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے‘ یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا‘‘۔ (المدثر: 40-47)
یہاں بھی پہلے تو نماز کا ذکر آیا ہے جو کہ ایمان کا عملی ثبوت ہے اور اس کے فوری بعد یہ کہ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے… یہ بھی بہت صاف صاف بتا رہا ہے کہ اللہ کی نظر میں مخلوق کی خدمت کا کیا مقام ہے۔