مزید خبریں

کھانے پینے کے اسلامی آداب

اسلام اپنی روشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے سے زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وضع قطع، بود و باش، رہن سہن حتیٰ کہ کھانے پینے تک کے متعلق اسلام نے انسان کو اپنی تعلیمات سے مستفید رکھا ہے اور اْس کی بہترین رہنمائی اور کامل رہبری کی ہے۔ ذیل میں ہم اسلام کی انہی تعلیمات کی رْوشنی میں کھانے پینے کے متعلق اسلامی آداب اسوۂ رسولؐ کی رْوشنی میں پیش کرتے ہیں۔
کھانا پینا ہمیشہ ہاتھ دھو کر دائیں اور سیدھے ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ سیدنا ابراہیمؓ فرماتے ہیں: نبیؐ اپنا دایاں ہاتھ کھانے، پینے، وضو اور ایسے دوسرے کاموں کے لیے فارغ رکھتے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ استنجا، ناک صاف کرنے اور اِن جیسے کاموں کے لیے رکھتے تھے۔ (کنز العمال)
کھانا ہمیشہ اپنے سامنے سے کھانا چاہیے، پورے برتن میں ہاتھ گھمانا اور دوسرے کے سامنے سے کھانا ٹھیک نہیں ہے۔ جعفر بن عبد اللہ بن حکم بن رافعؒ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا، کبھی اِدھر سے کھارہا تھا، کبھی اْدھر سے۔ حکمؓ مجھے دیکھ رہے تھے۔ اْنہوں نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! ایسے نہ کھاؤ جیسے شیطان کھاتا ہے۔ نبی اکرمؐ جب کھانا کھاتے تھے تو آپؐ کی اْنگلیاں آپؐ کے سامنے ہی رہتی تھیں۔ (اور اِدھر اْدھر نہ جاتی تھیں۔) (کنز العمال)
کھانا ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھانا چاہیے، لیکن اگر کبھی کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر کھانا پڑجائے تو بھی بیٹھنے کی ایسی ہیئت اختیار کرنی چاہیے کہ جس سے یوں معلوم ہو رہا ہوگویا آدمی زمین پر بیٹھا ہے۔ مثلاً کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر پاؤں نیچے کی طرف لٹکانے کے بجائے پاؤں اوپر کرکے بیٹھ کر کھانا کھائے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اور دودھ نکالنے کے لیے بکری کی ٹانگوں کو باندھا کرتے اور جو کی روٹی پر بھی غلام کی دعوت قبول فرما لیا کرتے تھے۔ (کنز العمال)
کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ… الخ ضرور پڑھ لینی چاہیے، تاکہ شیطان کھانے میں شریک نہ ہوسکے۔ سیدنا اْمیہؓ فرماتے ہیں:
نبی کریمؐ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھانا کھا رہا ہے، اْس نے بسم اللہ نہیں پڑھی، کھاتے کھاتے بس ایک لقمہ رہ گیا۔ جب اْسے منہ کی طرف اْٹھانے لگا تو اْس نے بسم اللہ اولہ وآخرہ کہا۔ اِس پر نبیؐ ہنس پڑے اور فرمایا: اللہ کی قسم! شیطان تمہارے ساتھ کھاتا رہا، پھر جب تم نے بسم اللہ پڑھی تو جو کچھ اْس کے پیٹ میں تھا وہ سب اْس نے قے کردیا۔ (ابو داؤد)
کھانے کی برائی اور اْس کی توہین نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح کھانے میں کبھی کوئی عیب اور نقص نہیں نکالنا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ اگر طبیعت چاہتی تو کھا لیتے، ورنہ چھوڑ دیتے۔ (تفسیر ابن کثیر)
کھانا ہمیشہ تین اْنگلیوں سے کھانا چاہیے! اور کھانا کھانے کے بعد اْنگلیاں چاٹ لینی چاہییں کہ یہ سنت ہے۔ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ جب کھانا کھالیتے تو اپنی تین اْنگلیاں چاٹ لیا کرتے۔ (شمائل ترمذی)
کھانے پینے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ بہت زیادہ کھانا نہیں کھانا چاہیے کہ اِس سے جسم خراب ہوجاتا ہے، طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے اور نماز و عبادات میں سستی اور کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ بہت زیادہ کھانے پینے سے بچو، کیونکہ اِس سے بدن خراب ہوجاتا ہے اور کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور نماز میں سستی آجاتی ہے۔ لہٰذا کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو۔ اِس لیے کہ میانہ روی سے جسم زیادہ ٹھیک رہتا ہے اور اِسراف (فضول خرچی) سے انسان زیادہ دْور رہتا ہے۔ (کنز العمال)
غلاموں، نوکروں چاکروں اور اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلانا چاہیے۔ ابو محذورہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں عمر بن خطابؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں صفوان بن اْمیہؓ ایک پیالہ لے کر آئے اور عمرؓ کے سامنے رکھ دیا۔ عمرؓ نے مسکینوں کو اور آس پاس کے لوگوں کے غلاموں کو بلایا اور اِن سب نے عمرؓ کے ساتھ یہ کھانا کھایا اور پھر عمرؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اْن لوگوں پر لعنت کرے جو اِس بات سے اعراض کرتے ہیں کہ اْن کے غلام اْن کے ساتھ کھانا کھائیں۔ سیدنا صفوانؓ نے کہا کہ ہمیں اْن کے ساتھ کھانے سے اِنکار نہیں لیکن ہمیں عمدہ کھانا اتنا نہیں ملتا جو ہم خود بھی کھالیں اور اْنہیں بھی کھلا دیں، اِس لیے ہم کھانا الگ بیٹھ کر کھا لیتے ہیں۔ (کنز العمال)
کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا مکروہ اور منع ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے غلام سیدنا مسلمؒ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) علیؓ نے پینے کی کوئی چیز منگوائی۔ میں اْن کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایا اور میں نے اْس پیالے میں پھونک ماردی تو علیؓ نے اْسے واپس کردیا اور پینے سے انکار کردیا اور فرمایا: تم ہی اسے پی لو۔ (یعنی تمہیں اِس میں پھونک نہیں مارنی چاہیے تھی!) (طبقات ابن سعد)
کھانا جس پلیٹ یا برتن میں کھایا جارہا ہو اگر اْس میں ختم ہوجائے اور مزید کھانا لایا جائے تو نیا برتن استعمال کرنے کے بجائے اْسے اْسی برتن میں ڈال کر کھایا جائے جس میں پہلے سے کھایا جارہا ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ابن عمرؓ نے ایک مرتبہ جْحفہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا تو ابن عامر بن کریزؒ نے اپنے نان بائی سے کہا کہ تم اپنا کھانا ابن عمرؓ کے پاس لے جاؤ۔ وہ پیالہ لے کر گیا۔ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ رکھ دو۔ وہ نان بائی دوسرا پیالہ لے کر گیا اور پہلا پیالہ اْٹھانے لگا۔ ابن عمرؓ نے فرمایا: کیا کرنے لگے ہو؟ اْس نے کہا: میں اِس پیالے کو اْٹھانے لگا ہوں۔ ابن عمرؓ نے فرمایا: نہیں، بلکہ دوسرے پیالے میں جو کچھ ہے وہ پہلے ہی میں ڈال دو! چناں چہ وہ نان بائی جو بھی لاتا (ابن عمرؓ) اْسے پہلے پیالے میں ڈلواتے۔ نان بائی جب ابن عامرؒ کے پاس گیا تو اْس نے کہا: یہ تو اْجڈ (دیہاتی) ہیں۔ ابن عامرؒ نے اْس سے فرمایا: یہ تمہارے سردار ہیں۔ یہ سیدنا ابن عمرؓ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء) اللہ پاک ہمیں ضیافت مہمان اور کھانے پینے کے آداب واحکام جاننے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!