مزید خبریں

عدم برداشت کا رجحان اور تعلیمات نبوی ﷺ

ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس وقت امن عالم کے خرمن پر ہر طرف سے بجلیاں گر رہی ہیں۔ فرد سے لے کر اقوام تک بے اطمینانی کا غلبہ ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے اور ہر فراز سے خون کی آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ انسانیت کا ماہ شرف‘ ظلمت اور جبر کے اتھاہ اندھیروں میں غروب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نام نہاد علم و تمدن کے ہاتھوں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ اخلاقی اقدار‘ نفسانیت اور ریاکاری کے سانچوں میں ڈھلتی چلی جا رہی ہیں اور غیر اخلاقی روایات خود غرضی کے فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ہوس زر نے خیانت‘ رشوت اور حصولِ دولت کے کسی بھی ذریعے کو ناجائز اور حرام نہیں رہنے دیا ہے۔ افراد اور اقوام نے انسانی اقدار سے بالاتر ہو کر وسعت پسندی کو اپنا ’’ماٹو‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اسی ’’وسعت پسندی‘‘ اور عدم برداشت کے رجحانات نے دنیا میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ قومیں قوموں سے نبرد آزما ہیں اور ملک ایک دوسرے سے دست و گریباں۔ انسانوں کی اجتماعیت بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے درمیان کھینچا تانی ہے۔ ہر شخص انا ولا غیری کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں لازم ہے کہ نبی کریمؐ کی ان تعلیمات سے رہنمائی حاصل کی جائے جن میں تحمل‘ برداشت‘ حلم و بردباری‘ عفو و درگزر‘ رواداری و احترام کا درس ملتا ہے۔
آج دنیا میں تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت انسانی معاشرے میں ایک خطرناک رخ اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وحشت اور دہشت کے سائے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہیجان خیزی اور شورش پسندی کے باعث کہیں مذہب کو بنیاد بنا کر اور کہیں سیاسی گروہ بندی کے حوالے سے تشدد کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر عزتیں لْٹ جاتی ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ بچوں کے معمولی جھگڑے خاندانوں کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مذہب سے بیگانگی اور دین سے دْوری کے سبب لوگ راہِ عمل کے بجائے راہِ فراراختیار کررہے ہیں۔ اسی لیے اس متمدن دور میں بھی خودکشی کی شرح حیرت انگیز ہے۔ عدم برداشت اور تشدد پسندی کے حوالے سے مذہبی حلقے آج سب سے زیادہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ دوسرے کے نقطۂ نظرکو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ اپنے عقائد اور نظریات کو دوسروں پر نافذ کرنا ہر شخص اپنا مذہبی حق سمجھتا ہے۔
عدم برداشت کا ایک اور اہم سبب معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک کو سوکھی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف کتے بھی ڈبل روٹی اور دودھ پر پَل رہے ہیں۔ محبت اور قناعت جیسے انسانی جذبے معاشرے سے مفقود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سیاسی عدم توازن اور پسند و ناپسند نے بھی ہیجان خیزی اور تشدد پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس نے بین الاقوامی سطح پر کمزور قوموں اور چھوٹے ممالک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
دنیا کے ان تمام مسائل کا حل اگر کہیں ہے تو صرف اور صرف تاجدار مدینہ کی تعلیمات میں جو کہ سراسر عدل اور محبت پر مبنی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نبی اکرمؐ کے صرف ایک فرمان: ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے‘‘۔ (الامام البخاری) کو کوئی بھی معاشرہ حرزِ جان بنا لے تو وہ امن کا گہوارہ اور محبت کا گلستان بن جائے گا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنے لیے خوب صورت‘ اعلیٰ اور بہتر بات کو پسند کرتا ہے۔ ایمانی اور انسانی تقاضے کے مطابق جب وہ اپنے لیے پسند کی جانے والی اچھی چیز کو دوسروں کے لیے بھی مقدم بنائے گا تو اس سے ہر طرف امن اور محبت کی خوشبو پھیل جائے گی۔
تحمل و برداشت اور حلم و بردباری ان اخلاقی صفات میں سے ہیں جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر کامیابی‘ عزت و عظمت اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ حلم کی وجہ سے انسان کے نفس میں وہ قوت برداشت اور وہ سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ کسی حالت میں بھی قوت غضب غالب نہیں آتی۔ ایک حلیم انسان کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی بات ہو یا اس کو کتنی ہی تکلیف پہنچائی جائے وہ صبر و ضبط سے کام لے کر انھیں برداشت کرتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی تاثیر یہ بیان کی ہے کہ دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اْس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔ (حم السجدہ: 34)
رسول اکرمؐ نے برداشت و تحمل‘ حلم و بردباری اور حوصلہ و صبر اختیار کرنے کی نہ صرف تعلیم دی ہے بلکہ اپنے اسوہ حسنہ کے ذریعے سے اس کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔ رسول اکرمؐ کی محبوبیت کا ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ مزاج مبارک میں برداشت وتحمل کی بے نظیر خصوصیت تھی۔ لوگوں کی سخت کلامی‘ ان کے ناروا سلوک اور سخت ترین اذیت رسانی کے باوجود آپ ان پر خفا نہ ہوتے۔ آپؐ کی یہی قوت برداشت اور متانت آپ کی صداقت کی بہت بڑی علامت ہے۔ اسی علامت کو دیکھ کر اور آزما کر یہود کا ایک بہت بڑا عالم زید بن سعنہ آپؐ پر ایمان لایا اور اپنا آدھا مال صدقہ کردیا اور پھر غزوئہ تبوک میں شہید ہو گیا۔
قرآن مجید اسی طرف اشارہ کر رہا ہے:
’’(اے پیغمبرؐ)! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (اٰل عمرٰن: 159)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کے کمال برداشت‘ کمال حلم اور کمال عفو و درگزر کی تعریف فرمائی ہے۔
نبی اکرمؐ کی زندگی شاہد ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا‘ سوائے اس کے کہ کسی نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی ہو اور اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو توڑا ہو۔