مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

کامیاب زندگی کا تصور
طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔
زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدر وقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے، بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں، وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے، اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ، اولاد، بیوی، شوہر، بھائی بند، رشتے دار، دوست، ہمسائے، قوم، وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے، ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے، یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں، جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں، جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے، ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے، جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے، اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے، جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہوا ہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔
اس امتحان گاہ میں اصلی اہمیت اس چیز کی نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر‘ کس حیثیت میں امتحان دے رہے ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو شخص یہاں مزدور کی حیثیت سے اٹھ کر ایک بڑا کارخانے دار‘ یا رعیّت کے مقام سے بلند ہو کر ایک بڑا فرماں روا بن گیا ہے‘ اس نے درحقیقت کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے بلکہ امتحان کے بہت سے زاید پرچے اس نے لے لیے ہیں اور پہلے کی بہ نسبت وہ بہت زیادہ سخت پرچے لے کر بیٹھ گیا ہے‘ جہاں نمبر زیادہ پانے کے جتنے امکانات ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ناکامی کے خطرات بھی ہیں۔
یہ امتحانی تصورِ حیات جس شخص کا بھی ہو‘ اس کا معیار کامیابی و ناکامی لازماً دوسرے تصورات حیات رکھنے والوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کے نزدیک اصل کامیابی خدا کے اس امتحان میں ایک بندئہ وفادار و شکرگزار ثابت ہونا ہے۔ ایک ایسا بندہ ثابت ہونا ہے جس نے خدا کے اور بندوں کے حقوق ٹھیک ٹھیک سمجھے اور ادا کیے ہوں۔ جس نے دل اور نگاہ‘ کان اور زبان‘ پیٹ اور جنسی قوتوں کو بالکل پاک رکھا ہو۔ جس کے ہاتھوں نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو‘ جس کے قدم بدی کی راہ پر نہ چلے ہوں‘ جس نے کم کمایا ہو یا زیادہ‘ مگر جو کچھ بھی کمایا ہو‘ حق اور راستی کے ساتھ کمایا اور جائز راستوں میں خرچ کیا ہو۔ جو امانتوں کا محافظ‘ قول و قرار میں سچا اور عہد و پیمان میں راسخ رہا ہو۔ جو بھلائی کا دوست اور برائی کا دشمن ثابت ہوا ہو۔ جسے اس کے خدا نے جس حیثیت میں بھی رکھا ہو وہاں اس نے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ سمجھا اور ادا کیا ہو۔
(کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ: پروفیسر انوردل‘ مکتبہ جدید‘ لاہور‘ مارچ 1964ء)