مزید خبریں

سابق سربراہ انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان چیئرمین نیب تعینات

اسلام آباد( نمائندہ جسارت+ مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت نے انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ آفتاب سلطان کو 3سال کے لیے چیئرمین نیب تعینات کردیا۔ جمعرات کووزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں آفتاب سلطان کی بحیثیت چیئرمین نیب تعیناتی کی منظوری دے گئی۔وزارت قانون کی جانب سے آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔آفتاب سلطان کی تعیناتی کا فیصلہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض میں اتفاق رائے کے بعد کیا گیا۔ وزیر اعظم نے لاہور میں اتحادی
جماعتوں کے سربراہان سے بھی مشاورت کی تھی۔آفتاب سلطان کا نام ن لیگ نے تجویز کیا تھا۔آفتاب سلطان ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے دور میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ رہے۔چیئرمین نیب کے لیے پی پی پی نے جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا نام تجویز کیا تھا لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کی 2سال کی مدت مکمل نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کی منظوری نہیں دی گئی۔ خیال رہے کہ سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد یہ عہدہ چند ہفتوں سے خالی تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں مدت ملازمت ختم ہونے کے باوجود جاوید اقبال کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع دی گئی تھی۔برطانوی سرکاری خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق آفتاب سلطان ایسے دوسرے سابق بیوروکریٹ ہیں جنہیں اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ اْن سے قبل سابق بیوروکریٹ چودھری قمر زمان کو چیئرمین نیب تعینات کیا گیا تھا۔ نیب کی تاریخ میں زیادہ تر چیئرمین ریٹائرڈ جرنیل بنے یا اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز، جنہوں نے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ کاروباری شخصیات اور بیورو کریٹس کا بھی خوب احتساب کیا۔آفتاب سلطان 1954ء میں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک سیاسی اور صنعتی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد اور ساس دو دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔آفتاب سلطان نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں گریجویشن کے بعد 1977ء میں مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔اپنے کیریئر کے دوران مختلف تنازعات کا شکار بھی رہے۔ جب پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے بعد 2002ء میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت آفتاب سلطان سرگودھا میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے۔صحافی اعزاز سید کے مطابق آفتاب سلطان کو ’اعلیٰ حکام‘ سے یہ پیغام موصول ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریفرنڈم میں ووٹ کرنے کو کہیں مگر انہوں نے ان احکامات پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اعزاز کے مطابق جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو سرگودھا ان چند شہروں میں سے ایک تھا جہاں ٹرن آؤٹ دیگر شہروں کے مقابلے میں انتہائی کم رہا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعدآفتاب سلطان کو معطل کر دیا گیا تھا۔اعزاز کے مطابق پولیس میں آفتاب سلطان کو ایک ’نیک نام اور دیانتدار افسر‘ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔جب عام انتخابات کے بعد 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آفتاب سلطان کو ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو کے عہدے پر تعینات کیا تاہم جب عدالت عظمیٰ نے یوسف رضا گیلانی کو آصف زرداری سے متعلق مقدمات میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی پاداش میں نااہل قرار دیا تو ان کے بعد راجہ پرویز اشرف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے سے ہٹا دیا۔آفتاب سلطان 2013ء کے عام انتخابات کے وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ ان انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو نواز شریف نے آفتاب سلطان کو ڈی جی آئی بی کے عہدے پر دوبارہ فائز کر دیا۔ یوں یوسف رضا گیلانی کے بعد اب آفتاب سلطان ایک اور وزیراعظم کی نظر میں بھی اس عہدے کے لیے ’بہترین انتخاب‘ بنے۔بی بی سی نے لکھا ہے کہ نئے چیئرمین نیب آفتاب سلطان ماضی میں عمران خان کی براہ راست تنقید کا نشانہ بھی رہ چکے ہیں۔عمران خان کے دور میں جب نواز شریف سمیت ن لیگ کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی تو نیب نے 2020ء میں آفتاب سلطان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور بدعنوانی (گاڑیوں کی غیرقانونی خرید و فروخت) کے الزام میں ایک ریفرنس دائر کرنے کی بھی منظوری دی تھی مگر بعدازاں نیب نے اپنا یہ ریفرنس واپس لے لیا تھا۔2017 ء کے دوران تحریک انصاف نے اپنے ایک پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک اعلامیے میں ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو ’ریاست کے بجائے شریفوں کا وفادار‘ قرار دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات‘ کی ہے۔ان الزامات کے جواب میں آفتاب سلطان نے جیو نیوز کو بتایا تھا کہ نواز شریف سے ہونے والی یہ ملاقات 4ماہ قبل شیڈول کی گئی تھی اور یہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔2014 ء میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الزام عاید کیا تھا کہ ’آفتاب سلطان نے بطور آئی بی چیف صحافیوں اور اینکرز میں پیسے تقسیم کیے تھے تاہم اس الزام کی بھی آفتاب سلطان نے تردید کرتے ہوئے ان الزامات کو گمراہ کن قرار دیا تھا۔ایک دفعہ پھر 2018ء میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے آئی بی کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے امیدواروں کا چناؤ کرے۔ انہوں نے آفتاب سلطان کو ’شریفوں کے گینگ کا رْکن‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ آئی بی کے سربراہ یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کون سا امیدوار الیکشن جیت سکتا ہے۔خیال رہے کہ ماضی میں آفتاب سلطان بطور ڈی جی آئی بی ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق جب عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے 2014 ء میں عین پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک کے مقام پر اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف 126 دن کا دھرنا دیا تو اس وقت آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی تھے۔ یہ وہ عرصہ ہے جب جاسوسی کے اداروں کے کردار میں اضافہ ہو گیا۔ آفتاب سلطان کی ذمے داری ’جاسوس کی جاسوسی‘ کرنا تھی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے اس دھرنا کے ایک سال مکمل ہونے پر بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ’ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔‘ مشاہد اللہ خان کے بقول اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب ’پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔ان کے مطابق 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انہیں سْنائی تھی تاہم اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹویٹر پر ایک بیان میں کہا تھا کہ میڈیا میں زیرِ بحث آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق خبریں ’بے بنیاد اور حقیقت سے دور‘ ہیں۔جب نواز شریف کا اسلام آباد میں نیب کی ایک احتساب عدالت میں پاناما مقدمے میں ٹرائل ہو رہا تھا تو نواز شریف نے عدالت کے سامنے بھی ان حقائق کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں مستعفی ہونے یا طویل چھٹی پر بیرون ملک جانے کا پیغام موصول ہوا تھا، جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔نواز شریف نے یہ بیان عدالت کے سامنے بھی دیا تھا تاہم عدالت نے آفتاب سلطان کو تصدیق کے لیے بلانے کے بجائے سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد بیان کا وہ حصہ عدالتی ریکارڈ سے حذف کر دیا جس میں نواز شریف نے دھرنوں سمیت دیگر امور پر تفصیلات بیان کی تھیں۔سابق آئی جی پولیس احسان غنی ماضی میں آفتاب سلطان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر وہ ایک سادہ مزاج انسان ہیں اور ’اسٹریٹ فارورڈ‘ ہیں جو پروٹوکول کے عادی نہیں تھے اور انہیں آسانی سے کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا۔ اْن کا کہنا تھاکہ پولیس فورس میں ان کی دیانتداری اور غیر جانبداری کی تعریف کی جاتی تھی۔وہ یاد کرتے ہیں کہ2013 ء میں جب انہیں آئی جی پنجاب لگایا گیا تو انہوں نے مشروط طور پر اس عہدے کو قبول کیا تھا کہ جیسے ہی نئی حکومت آئے گی تو انھیں ہٹا دیا جائے۔احسان غنی کے مطابق ’آئی بی کو جس طرح کا چیف درکار ہوتا ہے آفتاب سلطان شاید پہلے شخص تھے جو اس معیار پر پورا اْترے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر صرف اس حوالے سے تنقید کی جاتی ہے کہ ان کا ن لیگ سے قریبی تعلق رہا ہے۔ ’اس کی بڑی مثال یہ دی جاتی ہے کہ انییں دو بار (ن لیگ کے دور میں) بطور ڈی جی آئی بی توسیع دی گئی جو کہ روایات کے خلاف بات تھی۔احسان غنی کے مطابق اگر وہ یہ توسیع نہ لیتے تو اْن کے قد میں اور بھی اضافہ ہوتا۔تحریک انصاف کے سینئر رہنما شفقت محمود نے شہباز شریف پر ’اپنے وفادار‘ کو نیب چیئرمین تعینات کرنے کا الزام لگایا ہے جبکہ تحریک انصاف ہی کے رہنما ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اعلان کیا ہے کہ آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔