مزید خبریں

مفاہمت، اجتماعی بھلائی، حق رائے دہی کی وجہ سے جمہوریت تمام مسائل کا حل ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) مفاہمت، اجتماعی بھلائی اور حق رائے دہی کی وجہ سے جمہوریت تمام مسائل کا حل ہے‘ جمہوریت ہی ہمیں انتخابات کے ذریعے اپنے پسندیدہ افراد کی حکومت بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے ‘ جمہوری نظام صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ عوام کو ذہنی شعور بھی دیتا ہے‘ ہمارے معاشرے میں عوام کا شعور بیدار ہو رہا ہے جلد جمہوری اقدار فروغ پائیںگی‘ قوم منتخب نمائندوں کو آمروں اور جاگیرداروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن اسسٹنٹ پروفیسر حنا مہیب اور ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ بین القوامی تعلقات عامہ کی پروگرام منیجر سدرہ احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا جمہوریت ہمارے مسائل کا حل ہے؟‘‘ پروفیسر حنا مہیب کا کہنا تھا کہ جمہوریت بنیادی طور پر ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جو برداشت، رائے کا احترام، ذمہ داری اور مشاورت کے عناصر کا مجموعہ ہے اور اس کا حسن ہی مفاہمت میں پوشیدہ ہے مگر یہ مفاہمت اجتماعی بھلائی اور بہتری کے ساتھ منسلک ہے‘ جب جمہوریت کو بطورِ نظام حکومت ریاست میں لاگو کیا جاتا ہے توقع کی جاتی ہے کہ اِنہی عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتی ترجیحات کا یقین کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کو مسائل کا حل تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ جمہوریت بنیادی طور پر عوام کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے‘ جمہوریت کو اگر اس کی اصل روح کے ساتھ ریاست میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے لاگو کیا جائے تو یہ مسائل کے حل کے ساتھ آنے والے مستقبل کے لیے بھی بنیادی لائحہ عمل مہیا کرتی ہے‘ اس سلسلے میں ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی مثال ملتی ہے جہاں جمہوریت اور آئین کی پاسداری نے عوام اور ریاست پر خوشحالی اور ترقی کے دروازے کھول دیے ہیں‘ جمہوریت ہی ہمیں انتخابات کے ذریعے اپنے پسندیدہ افراد کی حکومت بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے اور جمہوریت ہی دوسروں کی رائے کی اہمیت اور عزت کی تعلیم دیتی ہے۔ سدرہ احمد کا کہنا تھا کہ جمہوریت صرف ایک نظریہ اور ایک سیاسی نظام ہی نہیں‘ بلکہ ایک سماجی عمل بھی ہے جس کی پہلی شرط ذہنی شعور اور فکری آزادی ہے‘ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں جمہوری اقدار اور جمہوری سوچ نہ ہونے کہ سبب ہمیں جمہوری نظام حکومت قابل عمل اور نتیجہ خیز نہیں لگتا‘ مزید یہ کہ تخلیق پاکستان کے بعد سے ہی بارہا فوجی آمروں کی حکمرانی نے عوام کا اعتماد جمہوریت کی پائیداری پر متزلزل کیے رکھا ہے‘ اسی کے ساتھ خود غرض اور موقع پرست سیاستدانوں کا غیر آئینی حکومتوں کا حصہ بنتے رہنا بھی جمہوریت کی جڑوں کو نہ پنپنے دینے کا سبب بنا ہے‘ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی عمل اور حکومت سازی میں عوام کی شرکت کے بنا کوئی بھی معاشرہ جمہوری نہیں کہلایا جا سکتا اور ادھر بھی اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ عوام کی رائے کے مطابق ہی ان کے پارلیمانی نمائندے منتخب کیے جائیں‘ پاکستان میں ہم اس بنیادی ڈھانچے اور سوچ سے ابھی دور ضرور ہیں مگر جس تیزی سے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں سیاسی شعور اور اپنی فکری آزادی پیدا ہو رہی ہے‘ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جلد یا بدیر پاکستان ایک جمہوری معاشرے اور جمہوری ریاستی ڈھانچے میں تبدیل ہو جائے گا‘ یہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے لوگ سیاست دانوں سے بھی نالاں ہوں ، مگر وہ بہرحال عوامی نمائندوں کو فوجی آمروں اور وراثتی سیاسی نظام سے بہتر سمجھتے ہیں‘ پاکستان کا مستقبل قائد اعظم محمد علی جناح کے اسی اصول کے مطابق ہی طے کیا جائے گا جس میں انہوں نے ببانگ دہل جمہوریت کو پاکستان کا واحد طرز حکومت قرار دیا ہے‘ ہماری بحیثیت قوم یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی سوچ، عہدے اور عمل کے ذریعے معاشرے میں جمہوری طرز عمل کو فروغ دیں‘ جدھر انسان کی عظمت ، اس کی سوچ کی اہمیت اور اس کی رائے کی ضرورت کو بنیادی حق کے طور پر مانا جاتا ہے۔