مزید خبریں

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ملازمین کی داد رسی کی جائے

جسٹس فار اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ورکرز اینڈ پارٹنرز ایکشن کمیٹی کے رہنما سراج الدین، سلمیٰ میر، اسریٰ شارق اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس فار او پی پی ورکرز اینڈ پارٹنر ایکشن کمیٹی بنائے جانے کا مقصد ان ملازمین اور پارٹنرز کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے جنہیں انسانی حقوق کی نفی کرتے ہوئے غیر منصفانہ طریقے سے ان کی ملازمتوں سے بے دخل کردیا گیا۔ پارٹنرز کے ساتھ کام کا تعلق ختم
کردیا گیا۔ افسوس کی بات کہ ان میں اکثریت کا تعلق براہ راست ڈاکٹر صاحب سے رہا ہے۔ او پی پی بطور ادارہ 1982ء میں وجود میں آیا۔ برصغیر کے نامور سماجی رہنما ڈاکٹر اختر حمید کے ہاتھوں اس کا قیام ہوا۔ وقت کے ساتھ عارف حسن، تسنیم احمد صدیقی، پروین رحمان اور انور راشد بھی ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ سے متاثر ہو کر اس ادارہ کا حصہ بنتے گئے۔ جنہوں نے ڈاکٹر اختر حمید خان کے فلسفہ کے مطابق کمیونٹی کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت کام کو آگے بڑھایا۔ او پی پی شہر کی بہتری کے لیے کام کرتا تھا۔ کم آمدنی والے طبقے کے رہائشی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا تھا۔ دوسری سماجی تنظیموں کے ساتھ گفتگو ہوتی تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے او پی پی کی موجودہ قیادت نے اپنے من پسند جونیئر لوگوں کو او پی پی میں بھرتی کرنا شروع کیا اور مختلف شعبوں میں سالوں خدمات انجام دینے والے کارکنان کو انتہائی غیر منصفانہ طریقے سے جبری طور پر نوکریوں سے بے دخل کردیا گیا۔ احتجاج کی صورت میں کسی بھی قسم کا بقایا جات ادا نہ کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ سینئر عملہ کو گھروں میں خط بھیج کر نوکری ختم کرنے کا حکم دیا گیا۔ اب تک 32 سے زیادہ خواتین و حضرات کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے سال 2013ء کے فکری تشخص کو بحال کرنا ہے۔ ڈاکٹر اختر حمید کے فلسفے کے مطابق او پی پی کارکردگی کو بحال کیا جائے۔ او پی پی سے نکالے گئے متاثرہ اسٹاف کو قانونی اور اخلاقی تحفظ فراہم کیا جائے۔ متاثرہ ملازمین کے مالی واجبات کی یقینی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ متاثرہ ملازمین کی انسانی حقوق کی بنیاد پر دوبارہ ملازمت کی بحالی کی جائے۔ سینئر پارٹنرز کی حوصلہ شکنی ختم کرکے پارٹنرز کے ساتھ کام کا دائرہ کار بحال کیا جائے۔ اس موقع پر لالہ اورنگ زیب، معین خان، شمس الدین، فہد لیاقت، ڈاکٹر امداد حسین اور اقبال انور بھی موجود تھے۔