مزید خبریں

صنعتوں میں گیس و بجلی بحران ،عوام پریشان

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی) سمیت کراچی کی ٹاؤن ایسوسی ایشنز نے وزیراعظم شہباز شریف سے گیس کی عدم فراہمی کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کراچی کی صنعتوں کو طلب کے مطابق گیس کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی صنعتیں مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گی۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت میں کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز، پاکستان اپرل فورم، نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری، لانڈھی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری اور سائٹ سپرہائی وے ایسوسی ایشن آف انڈسٹری نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام ایس او ایس اپیل میں سندھ میں گیس کی سپلائی میں کمی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پیداواری نقصانات، حکومت کے ریونیو، زرمبادلہ اور برآمدات میں نمایاں کمی کے خدشے کے پیش نظر وزیر اعظم سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ صنعتوں کو تباہی سے بچانے میں کردار ادا کریں۔ لیکن تاجروں اور صنعتکاروں کا یہ مطالبہ ہر گز درست نہیں سب سے پہلے صنعتکاروں اور تاجروں کی ضرورت کے مطابق گیس دی جائے اس سے گھروں میں بجلی اور گیس مکمل طور سے نایاب ہو جائے گی ۔آج بھی صنعتی اداروں گیس پمپ کے ساتھ آبادی کے مکینوں کے بلزآسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے صنعتی اداروں میں چوری ہونے والی گیس اور بجلی کے بھاری بلز کو ہلکا کرنے لیے پورے علاقے کے عوم لوگوں کے بلز بھاری بھرکم بنا دیا جاتا ہے۔حکومت نے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر رہی لیکن اس کے برعکس صنعتکاروں اور تاجروںہر طرح کی چھوٹ دی جارہی ہے
ایس اوایس پر نظر ڈالی جائے تو سندھ پہلے ہی آر ایل این جی سے محروم ہے اور ایس ایس جی سی ایل کو محض 75 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جاتی ہے۔کراچی جو پاکستان کا صنعتی اور ٹیکسٹائل کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور قومی خزانے میں 68 فیصد ریونیو جمع کرواتا ہے نیز قومی برآمدات میں 54 فیصد اور ٹیکسٹائل کی مجموعی برآمدات کا 52 فیصد حصہ رکھنے کے باوجود گیس اور آر ایل این جی سے محروم ہے۔حکومت کی جانب سے صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کرنا انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ہمیں بڑی صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے برآمدات میں بھی کمی آئے گی لہٰذا گیس کی بلاتعطل سپلائی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ایس او ایس اپیل میں مزید کہا گیا کہ صوبہ سندھ میں پیدا ہونے والی گیس سندھ کے پاس ہی رہنی چاہیے اور سندھ میں ہی استعمال کی جائے۔1250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس جو دہائیوں پہلے سندھ کو دی گئی تھی وہ بھی کم ہو کر 880 ایم ایم سی ایف ڈی رہ گئی ہے۔ گیس سپلائی کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ سندھ کے علاقے گھوٹکی میں دریافت ہونے والی 110 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایس این جی پی ایل کو دی گئی ہے جبکہ ماری 110 ایم ایم سی ایف ڈی کی طرف سے ایک اور ایکسپلوریشن ایس این جی پی ایل کو دی گئی ہے۔اس لیے گھوٹکی کی فیلڈ ایس ایس جی سی ایل کو دی جائے جو سندھ میں واقع ہے۔ایس اوایس اپیل میں کراچی چیمبر سمیت کیپٹا، پی اے ایف، نکاٹی، سائی، لاٹی، سسائی نے وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کروائی کہ اگر صنعتوں کو ڈسٹری بیوشن کا چارج دیا جائے(گھوٹکی سی75 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی، 110 ایم ایم سی ایف ڈی اور اس وقت 880 ایم ایم سی ایف ڈی ایس ایس جی سی ایل کو دی گئی ہیں)۔ کراچی کو موسم سرما کی آمد تک جہاں ضرورت ہو گی گیس کی یکساں فراہمی سے چلایا جا سکے گا اور موسم سرما کے دوران صنعت ایک معقول منصوبہ بھی فراہم کرے گی۔
پاکستان میں گذشتہ کئی برسوں سے گھریلو اور تجارتی صارفین کو موسم سرما میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں کمی کر دی جاتی ہے تو دوسری جانب صنعت و تجارت کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن اب یہ سب کچھ گرمیوں میں جاری ہے ۔حکومت گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کے ساتھ قومی معیشت اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گیس پر بڑی حد تک انحصار کرتی ہے جن میں گیس سے بجلی بنانے والے کارخانے، صنعتوں میں پیداواری عمل کے لیے گیس کی کھپت سے لے کر گاڑیوں میں بطور ایندھن استعمال کرنے کے لیے سی این جی سٹیشنز پر گیس کی فراہمی شامل ہے۔
دو سے تین ماہ کے بعد ہی ملک میں سردیوں کی آمد شروع ہو جائے گی جس کے ساتھ گیس کی کھپت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس میں زیادہ اضافہ ملک کے شمالی حصے میں گیس پر چلنے والے ہیٹرز اور گیزر کا استعمال بھی ہے جو گھریلو صارفین کی جانب سے گیس استعمال کرنے کی شرح کو بڑھا دیتے ہیں۔حکومت کی جانب سے گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے سردیوں میں گیس کی بجائے بجلی استعمال کرنے کے مراعاتی پیکج بھی دیا گیا ہے جس میں یکم نومبر سے لے کر فروری کے اختتام تک بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود ملک میں آئندہ دنوں میں گیس کی شدید کمی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
ملک میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جہاں مقامی طور پر گیس کی پیداوار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جبکہ درآمدی گیس تنازع کا شکار رہی ہے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات بھی تسلسل سے سْننے میں آتے ہیں۔
پاکستان میں گیس کے شعبے کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سردیوں میں گیس کا بحران شدید تر ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق گیس کے شعبے میں بحران کی وجہ اگر کئی برسوں میں اس شعبے میں منظر عام پر آنے والے تنازعات ہیں تو اس کے ساتھ فوری نوعیت کے فیصلوں کے تاخیر نے بھی اس گیس بحران کو شدید بنایا ہے۔
پاکستان میں اس وقت درآمدی گیس کے دو ٹرمینل پورٹ قاسم کراچی پر کام رہے ہیں جو اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔ملک میں گیس کی کمی کے بارے میں اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس بحران کی وجہ طویل مدتی منصوبہ بندی نہ ہونے کے ساتھ فوری نوعیت کی فیصلہ سازی کا بھی فقدان ہے۔پاکستان میں گیس کا ایک بہترین انفرااسٹرکچر موجود ہے جس میں معیاری ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام ہے۔ معیشت میں گیس کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ ملک میں اس وقت 13315 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن، 149715 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن اور 39612 کلو میٹرسروس گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک ہے جو ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کو گیس فراہمی کے کام آتا ہے۔پاکستان میں اگر مقامی طور پر گیس کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 18-2017 میں ملک میں گیس کی مقامی پیداوار 1458935 ایم ایم سی ایف ٹی تھی جس میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے اور یہ گذشتہ مالی سال تک 962397 ایم ایم سی ایف ٹی تک گر چکی ہے۔ مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے گیس درآمد کی جار ہی ہے جو اس وقت تک ملکی ضرورت کا 23 فیصد پورا کرتی ہے۔ ملک میں یومیہ چار بلین کیوبک فیٹ کی ضرورت ہے جس میں سے 2.8 بلین کیوبک فیٹ مقامی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے تو 1.2 بلین کیوبک فیٹ درآمد کی جاتی ہے
گیس کی زیادہ قلت کی بڑی وجہ جو اب تک سامنے آئی ہے وہ گیس کی عالمی قیمتیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو کچھ درآمدی گیس کے ٹینڈر منسوخ کرنا پڑے۔ رواں سال گذشتہ سال کے مقابلے میں ایک چیز جو مختلف ہوئی وہ گیس کے عالمی سطح پر بہت زیادہ نرخ ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں ایل این جی جو ان مہینوں میں سات ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو فراہم کی جا رہی تھی اس کی موجودہ قیمت100 ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کے درآمد کے کچھ معاہدے طویل مدتی ہیں تو کچھ ’ اسپاٹ کارگو‘ ہوتے ہیں یعنی موجودہ قیمت پر ایل این جی خریدنا۔ کورونا وائرس کے بعد طلب اتنی زیادہ بڑھی کہ دوسری چیزوں کی طرح گیس کی قیمتیں بھی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔واضح رہے کہ پاکستان نے سابق عمران حکومت کے دور میں ا سپاٹ ٹریڈنگ کے لیے ایمرجنسی ٹینڈر جاری کیے کیونکہ پاکستان کو درآمدی گیس فراہم کرنے والی دو کمپنیوں نے زیادہ قیمت کی وجہ سے پہلے نرخوں پر گیس بیچنے سے انکار کر دیا تھا۔ماہرین کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے رواں برس عالمی سطح پر گیس کے نرخ کافی زیادہ ہیں دنیا میں ایل این جی کی بڑھی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے جہاں بہت سارے دوسرے ممالک متاثر ہوئے وہیں پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ اگر برطانیہ کو دیکھا جائے تو وہاں گیس سپلائی کرنے والے 20 سپلائرز اس وجہ سے ڈیفالٹ کر گئے کہ وہ پرانے نرخوں پر گیس فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ پاکستان میں اگلے دو مہینوں میں گیس کی کمی بہت زیادہ ہو گی جس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان لانگ ٹرم معاہدوں پر گیس حاصل کر لے گا لیکن اسپاٹ کارگو اتنے مہنگے ہیں کہ انھیں برداشت کرنا مشکل ہو گا۔پاکستان نے حال ہی میں اگر مہنگی ایل این جی گیس تیس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر خریدی ہے اس سے زیادہ خریدنا اور اسے سستے داموں صارفین کو فراہم کرنا اس شعبے میں گردشی قرضے کو بڑھائے گا۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں درجنوں ملکوں نے ایٹمی بجلی گھر بنانا شروع کر دئیے، جوہری توانائی کی واپسی دنیا کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے، سستی بجلی کے حصول کے لیے آگ سے نہ کھیلا جائے، ایٹمی ماہرین کی قلت سے چرنوبل اور فوکوشیما جیسے حادثات ہو سکتے ہیں۔ تیل اور گیس کی ناقابل برداشت قیمت کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں جس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ان ممالک میں امریکا اور یورپی ملک بھی شامل ہیں جو اپنا آئل امپورٹ بل اور روسی تیل اور گیس پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔صرف ایک ملک فرانس چودہ ایٹمی ری ایکٹر بنا رہا ہے۔ بہت سے ممالک نے چرنوبل اور فوکو شیما جیسے خطرناک حادثات کے بعد اپنے ایٹمی بجلی گھر بند کر دئیے تھے جس کی وجہ سے اس صنعت کے ماہرین کی تعداد بھی گھٹنے لگی اور کئی دہائیوں بعد زیادہ تر ماہرین یا تو ریٹائر ہو گئے ہیں یا مر چکے ہیں۔اب تجربہ کار ماہرین کی کمی کی وجہ سے پرانے ایٹمی بجلی گھروں کی بحالی اور نئے بجلی گھروں کی تعمیر میں اربوں ڈالر کی اندھا دھند سرمایہ کاری خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،سستی بجلی کے حصول کی کوشش میں آگ سے نہ کھیلا جائے۔ایٹمی بجلی گھر آلودگی نہیں پھیلاتے مگر ایٹمی فضلے کو بہت احتیاط سے ٹھکانے لگانا پڑتا ہے جو کئی سو سال تک تابکاری پھیلا سکتا ہے۔ جوہری توانائی کو سولر پاور اور ونڈ انرجی پر اس لیے ترجیح دی جا رہی ہے کہ اس سے بجلی کی سپلائی متواتر ہوتی ہے۔ شمسی توانائی کے لیے مطلع صاف ہونا ضروری ہے جبکہ ونڈ انرجی کے لیے تیز ہوا ضروری ہے جبکہ ایٹمی بجلی گھر سے بجلی کی پیداوار میں ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی ناکامی کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی کی امید دم توڑ جائے گی جس کی وجہ سے ایٹمی توانائی کے حصول کی دوڑ میں اضافہ ہو گا جو دنیا کے مستقبل کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔پرانی جوہری ٹیکنالوجی پر انحصار کے بجائے اگر قابل تجدید توانائی کے ذرایع اختیار کیے جائیں تو بہتر رہے گا۔ نیوکلیئر پاور پانی کو ابالنے کا ایک انتہائی پیچیدہ، مہنگا اور خطرناک طریقہ ہے۔ ابلے ہوئے پانی کی بھاپ سے ٹربائنز چلائے جاتے ہیں جو بجلی پیدا کرتے ہیں اور اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو اس سے بڑے پیمانے پر انسانی اور ماحولیاتی نقصان ہوتا ہے جس کی قیمت عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اس حوالہ سے احتیاط کا راستہ اپنایا جائے۔