اسلا م آباد(نمائندہ جسارت)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے جمہوریت کے لیے اظہار رائے کی آزادی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی اسٹبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے۔عوام اور فوج میں فاصلے بڑھتے رہے تو سب کا نقصان ہوگا، میں کبھی فوج کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتا، طاقتور فوج اس ملک کی ضرورت ہے۔جرنیلوں اور لیڈرز کے لیے یوٹرن بہت ضروری ہوتا ہے، غلطی کو پہچان کر واپس آجانا چاہیے۔ شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک کی جمہوریت دو بنیادوں پر کھڑی ہے، پہلے نمبر پر قانون کی بالادستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وہاں اتنے سخت معیار ہیں کہ اگر آپ کسی کی توہین کرتے ہیں تو ایک انسان کو اپنی عزت کے تحفظ کے لیے جو حق وہ پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اس لیے نہیں ہے کہ64 سال میں آدھا فوجی آمروں نے حکومت کی اور آدھا ان دو خاندانوں نے حکومت کی ہے لیکن ان دونوں کے دور میں قانون کی بالادستی نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ جب ایک فوجی آمر ملک کو سنبھالتا ہے تو وہ خود بخود قانون توڑ دیتا ہے اور خود کو قانون سے بالا تر رکھتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرے۔میڈیا پر پابندیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں سوائے نجم سیٹھی کے خلاف ایک کیس کے کسی میڈیا پر کارروائی نہیں کی، نجم سیٹھی نے میری ذات پر حملہ کیا تھا اس لیے عدالت میں گیا۔ عمران خان نے کہا کہ تین چار مرتبہ کابینہ اجلاس میں بیٹھے تھے تو پتا چلا کہ کسی صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے، کسی کو بھی میرے احکامات پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ میرا مسئلہ یہ تھا کہ جعلی خبریں آتی تھیں، میرے وزرا کے بارے میں جھوٹی خبریں آئیں تو میں نے انہیں وٹس ایپ کیا کہ اپنا دفاع کرو لیکن وہ جھوٹی خبریں تھیں اور دو وزرا نے لندن میں جا کر مقدمہ کیا اور جیت کر آئے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا۔عمران خان نے کہا کہ ایک اور عنصر سوشل میڈیا آچکا ہے جہاں کئی مرتبہ غلیظ چیزیں آرہی تھیں، دراصل دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہے اور بحث جاری ہے کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب تک میں حکومت میں نہیں آیا اس وقت تک فوج کا نکتہ نظر معلوم نہیں تھا اس لیے اس کے خلاف بولتا رہا کیوںکہ جن کے رشتہ دار اٹھا لیے جاتے تھے تو وہ میرے پاس آتے تھے جو دردناک کہانیاں تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں لوگوں کو اٹھالیا جاتا تو قومی سلامتی کمیٹی میں آتا تھا اور میں نے جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے اس حوالے سے بات کی اور انہوں نے کئی لوگوں کو چھوڑا۔انہوں نے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ عدالت میں مسئلہ آتا ہے کیونکہ ایک دہشت گرد کو عدالت لے کر جاتے ہیں تو ثابت کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ ثبوت کہاں سے آتے ہیں، پھر امریکا اور انگلینڈ کی مثال دی جاتی تھی۔انہوں نے کہاکہ ہماری اسٹبلشمنٹ کو تفریق کرنا چاہیے کہ کب آپ تعمیری تنقید کر رہے ہیں اور کب نقصان پہنچا رہے ہیں، جب ایک اسٹبلشمنٹ کی مداخلت یہ ہوتی ہے کہ صحافیوں کو پکڑ رہے ہیں اور جب سمجھیں فوج پر تھوڑی تنقید ہوئی ہے تو کارروائی کی تو اس سے فوج کو نقصان پہنچے گا، اس سے فائدہ نہیں ہوگا اور معلومات رک نہیں سکتیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو طاقت ور ترین فوجیں1941میں ہٹلر اور دوسری نپولین کی تھی اور دونوں فوجیں روس کے اندر تباہ ہوگئیں کیونکہ جب وہ حملہ کر رہے تھے تو روس میں سردیاں آرہی تھیں لیکن جنرلز نے ان کو بڑا سمجھایا تھا لیکن وہ مانے نہیں حالانکہ اس وقت یوٹرن لینا چاہیے تھا اور یوٹرن جنرلز اور لیڈرز کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ کسی بھی لیڈر کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ غلطی ہوتی ہے، بہتر ہوتا ہے غلطی جان کر واپس آجائیں اور دونوں بڑی فوجیں روس میں تباہ ہوگئیں،عمران خان نے کہا کہ سینئر صحافی عمران ریاض سمجھتے ہیں کہ ان کو زہر دیا گیا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے،چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے، دوسرے راستوں میں مسئلے ہی مسئلے ہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مارشل لا کا دور گزر چکا ہے اور جمہوریت مضبوط ہونی چاہیے۔