مزید خبریں

قرآن کا مخاطب: انسان

اس دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزل مقصود۔ یہ چیز قرآن پاک کا بنیادی مضمون ہے‘ یعنی اس بات کی وضاحت و تشریح کہ اس زندگی میں انسان کی ذمے داری اور بالآخر اس کی وہ منزل مقصود جہاں اس کو جانا ہے وہ کیا ہے؟ اور وہاں کیسے پہنچا جائے؟ قرآن پاک شروع سے لے کر آخر تک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ایک موضوع سے بحث کرتا ہے کہ انسان کیا ہے؟ کہاں سے‘ کیوں اور کیسے آیا ہے؟ اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی ذمے داریاں کیا ہیں اور اسے کیا کرنا چاہیے؟
اس ایک سوال کا جو بہت سے سوالوں کا مجموعہ ہے‘ جواب دینے کے لیے قرآن پاک زندگی کے تمام مسائل سے بحث کرتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی عائلی زندگی‘ خاندانی زندگی‘ اس کی معاشرتی زندگی‘ اس کی معاشی زندگی‘ اس کے معاملات‘ اس کا کاروبار‘ اس کی سیاسی زندگی غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی جائے‘ اور یہ بتایا جائے کہ وہ خاندان‘ معیشت‘ معاشرے اور حکومت کا کاروبار کس طرح چلائے؟ ان پہلوئوں میں پیش آنے والے تمام سوالات سے بحث کی جائے۔ جنگ کے حالات ہوں تو اس کا رویہ کیسا ہو‘ امن کے دوران کیا ہو‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غور کرنے اور اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت اس میں پیش آئے گی۔ اس لیے یہ سارے مسائل جن کی ضرورت اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے پڑتی ہے ان سب سے قرآن پاک میں بحث کی گئی ہے۔
لہٰذا قرآن مجید میں انسانی زندگی سے بحث کرنے والے تمام علوم و فنون کی بنیادیں موجود ہیں۔ اس کتاب کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان کسی طرح کامیاب طریقے سے منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اس لیے اس اصل ہدف کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اس کتاب میں سائنس کی معلومات بھی ملتی ہیں‘ معاشیات اور دوسرے بہت سے علوم کی تعلیم سے متعلق سوالات جن کی راہ میں ضرورت پیش آئے گی ان سب کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کتاب کے اسلوب میں اور دوسرے تمام علوم و فنون کے انداز میں ایک نمایاں فرق ہے‘ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے کہ انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور اس کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور قرآن پاک بھی ان سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن پاک کے جواب میں اور باقی تمام فلسفوں اور نظاموں کی طرف سے دیے جانے والے جوابوں میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ دوسرے نظاموں اور فلسفوں میں توجہ کا مرکز انسان کا ماضی‘ یعنی اس کا آغاز ہے۔ وہاں بیشتر بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ یا زیادہ سے زیادہ یہ بحث ملتی ہے کہ اب یہاں اس کو کیا کرنا ہے۔ آپ دیکھیںگے کہ انسان کے بارے میں سائنس کی 90 فی صد بحثیں یہی ہیں کہ انسان آیا کہاں سے؟ کوئی بندر پر تحقیق کر رہا ہے‘ کوئی بن مانس پر تحقیق کر رہا ہے‘ غرض آغاز کے متعلق لوگ ہزاروں سال سے بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے سائنس کو بہت کم بحث ہوتی ہے کہ یہاں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس سے تو شاذونادر ہی کسی کو بحث ہوتی ہے کہ انسان کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کامیابی کیسے حاصل کی جائے؟ اس اصل سوال سے ان میں سے کسی کو بحث نہیں ہوتی۔ نہ سائنس کو‘ نہ سماجیات کو اور نہ بشریات کو۔ آپ غور کریں کہ آخر یہ چیز ہمارے لیے کیا عملی افادیت رکھتی ہے کہ انسان کہاں سے اور کیسے آیا؟ قرآن نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے لیکن اس کو بنیادی مسئلہ نہیں بنایا۔ ایک واضح اور سادہ جواب دینے پر اکتفا کیا ہے اور تفصیلات کو غیر ضروری قرار دے کر چھوڑ دیا ہے لیکن زیادہ توجہ اس پر دی ہے کہ اب انسان کو یہاں کیا کرنا چاہیے‘ اسے اب آگے کہاں جانا ہے اور سفر کو کیسے مکمل کرنا ہے۔
یہ ایک واضح بات ہے کہ ہم میں سے کسی کا آغاز بھی ہمارے اپنے قبضے میں نہیں ہے۔ جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو اپنی مرضی سے نہیں آتے‘ ہم میں سے کوئی بھی اپنے آزادانہ فیصلے یا مرضی اور اختیار سے اس دنیا میں نہیں آیا۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میاں! تمھیں اس دنیا میں بھیجوں یا نہ بھیجوں‘ نہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا‘ نہ میرے ماں باپ نے پوچھا۔ مجھے تو اس دنیا میں آنے کا شعور بھی پیدایش کے کئی سال بعد ہوا۔ آنے کے بعد بھی اب اگر کوئی انسان چاہے کہ وہ اس دنیا میں آنے یا نہ آنے کا خود فیصلہ کرلے تو یہ بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے ہم اس کے آغاز کے متعلق بہت سی تفصیلات جان کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اس لیے کہ آیندہ بھی لوگ اس دنیا میں آتے رہیں گے اور وہ بھی اسی بے اختیاری سے ہی آئیں گے۔ اس لیے انسان کے آغاز پر بہت زیادہ غور وفکر کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ توجہ وہاں دینی چاہیے جو ہمارے اختیار میں ہو۔ آیندہ کامیابی کی منزل کا حصول میرے اختیار میں بھی ہے اور آپ کے اختیار میں بھی۔ اگر میں کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچنا چاہوں تو اللہ نے مجھے اس کے لیے وسائل دیے ہیں اور میں ایسا کرسکتا ہوں۔ مجھے اختیار بھی دیا ہے‘ اسباب بھی پیدا کیے ہیں اور حالات بھی فراہم کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے اس چیز پر زور دیا جو ہمارے اختیار میں ہے‘ ہم اس کو بنا بھی سکتے ہیں اور برباد بھی کر سکتے ہیں۔ سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ ہے فرق قرآن پاک اور باقی کتابوں میں۔ قرآن پاک بات کرتا ہے مستقبل کی‘ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا اسلوب Oriented Future ہے‘ یعنی نظر بہ مستقبل۔ باقی علوم و فنون کا اسلوب Oriented Past ہے‘ یعنی نظر بہ ماضی۔ صرف ماضی میں جھانکتے رہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر مستقبل سے نظر ہٹ جائے جو آپ کے بس میں ہے اور اس کا بنانا اور بگاڑنا دونوں آپ کے اختیار میں ہیں‘ تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس مضمون کو اقبالؒ نے بہت عمدہ اسلوب اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہےکہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
گویا ابتدا کی ایک حد سے زیادہ فکر کرنا غیر ضروری ہے‘ فکر انجام کی کرنی چاہیے۔ قرآن پاک میں بھی آپ کو جابجا ملے گا: ’’اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ (الاعراف: 127) جس کا ہدف یہی سبق دینا ہے کہ اصل مقصود مسلمان کی آخرت کی زندگی ہے‘ اسی کو منزل مقصود سمجھنا چاہیے۔