مزید خبریں

دعوت کا کام اور خاوند کی اطاعت

سوال: میں جماعت اسلامی کی کارکن ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر شوہر کی رضامندی نہ ہو کہ اْس کی بیوی جماعت میں کام کرے تو وہ بیوی کیا کرے؟ میری ساس خود بھی دعوت کا کام سرگرمی سے کرتی رہی ہیں لیکن اب مزاحم ہیں۔ وہ اور میرے میاں کوشش کرتے ہیں کہ میں گھر کے کاموں میں ہی مصروف رہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کارکن (لڑکی) کو اْس کی ساس اور اْس کے میاں گھر کے کاموں میں ہی مسلسل مصروف رکھنے کی کوشش کریں تو بیوی کہاں تک تابعداری کرے؟ ایک بیوی اپنے شوہر یا اپنے رب کی ناراضی میں سے کس چیز سے ڈرے؟ میرے ابھی بچے نہیں ہیں‘ لہٰذا میں یہ چاہتی ہوں کہ جتنا کام ہو سکے ابھی کر لوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میری عمر بھی کام کرنے کی ہے۔ میری رہنمائی فرمایئے۔
جواب: اسلام کے نظم اجتماعی اور معاشرتی نظام میں اخلاق کی بنیادی اہمیت ہے۔ دونوں نظاموں میں ہر وہ کام مطلوب اور جائز ہوتا ہے جو اخلاق کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایک کارکن کے لیے نظم کے کسی فیصلے کی اطاعت ایمان کے تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قرآن و حدیث نے اولی الامر کی ہر اس بات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق ہو۔ یہی شکل معاشرتی نظام میں ہے۔ گھر میں ذمے دار فرد سربراہ خاندان‘ یعنی بیوی کے لیے شوہر اور بچوں کے لیے والدین قرار پائیں گے۔ ایک بیوی شوہر کی ان تمام خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہی مطلب ہے اس کی رضامندی کا‘ اور یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں کہا گیا ہے کہ لاطاعٹ المخلوق فی معصیۃ الخالق (اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اب یہ بات تو آغاز ہی میں طے ہوگئی کہ شوہر کی رضامندی سے مراد ہر الٹی سیدھی خواہش نہیں ہے بلکہ ہر وہ خواہش ہے جس کے لیے بنیاد اور دلیل قرآن وسنت میں موجود ہو‘ مثلاً اگر شوہر یہ کہے کہ بغیر حجاب اس کے ساتھ کسی مخلوط پارٹی میں شرکت کی جائے تو یہ خواہش قرآن و سنت دونوں سے متصادم ہے۔ اگر شوہر کی اطاعت اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں انتخاب ہو تو بیوی ہی کو نہیں خود شوہر کو اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے بیوی سے اپنی بندگی کی اْمید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ دونوں کی ناراضی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
جماعت اسلامی میں کام کا واضح مفہوم دعوت دین ہے۔ دعوت دین ایک خاتون کارکن مختلف شکلوں میں دے سکتی ہے۔ اپنے محلے میں‘ کسی اسکول یا تنظیم کی خواتین کے ساتھ حلقۂ درس قرآن کے ذریعے اور دینی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرکے‘ یا کسی بستی میں فلاحی کام کرکے‘ یا اپنے ہی گھر میں شوہر‘ ساس‘ نند یا جو بھی اہل خانہ ہوں ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرکے اور خود شوہر کو حکمت کے ساتھ دعوت کے قریب لا کر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کھانے کے دوران یہ تجویز رکھیں کہ چھٹی کے دن گھر کے تمام افراد نصف گھنٹے کے لیے ساتھ بیٹھ کر قرآن کریم کی چند آیات ترجمے کے ساتھ مطالعہ کریں اور آغاز آپ کے شوہر کریں‘ یا آپ کی ساس یا نند کریں تو خود بخود ترجمہ سننے کے دوران کوئی سوال ایسا اٹھے گا جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی تفسیر کا حاشیہ پڑھنا پڑے گا۔ فرض کیجیے کہ آپ نے تفہیم القرآن‘ تدبر قرآن‘ معارف القرآن‘ فی ظلال القرآن یا کسی بھی تفسیر کو اس غرض کے لیے بنیاد بنایا اور خود آپ کے شوہر نے وہ حاشیہ پڑھ کر سنایا تو اسی کا نام دعوت دین اور جماعت اسلامی کا کام ہے۔
یہ کام گھر سے باہر جائے بغیر گھر ہی میں ہو سکتا ہے۔ یہ کام صرف تین ماہ کر لیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ آپ کے شوہر اور ساس خود آپ سے کہیں گے کہ بیٹی‘ اگر اللہ نے تمھیں دوسروں کو بات سمجھانے کی صلاحیت دی ہے اور تم ہماری وجہ سے اس کا استعمال نہیں کرو گی تو جواب دہی ہم سے بھی ہوگی کہ تمھیں اس کام سے کیوں روکا۔
دعوت دین کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے گھر میں درس قرآن کا حلقہ قائم کر لیجیے۔ اس طرح دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ آپ کے اہل خانہ کو بھی شرکت کا موقع ملے گا۔ آپ بھی کبھی درس دے سکیں گی۔ اس طرح دعوت کا کام بھی ہو جائے گا اور اہل خانہ بھی قرآن سے اثر لیں گے اور وہ مزاحمت نہ ہوگی۔
دعوت دین‘ امر بالمعروف ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے اور شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتا ہے۔ اگر اس کا شعور اس وقت آپ کے شوہر کو نہیں ہے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ حکمت کے ساتھ انھیں متوجہ کرتی رہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی دے گا۔ ان شاء اللہ!
ممکن ہے کہ ان کی والدہ نے دعوتی کام میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے خود ان پر توجہ نہ دی ہو جس کے ردعمل کے طور پر وہ آپ کو دعوتی کام میں زیادہ مشغول نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس کا حل صرف اور صرف صبر واستقامت اور حکمت کے ساتھ مستقل مزاجی سے اچھے اخلاق اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا ہے۔
اگر انتخاب رب کی ناراضی یا شوہر کی ناراضی میں ہو تو اسلام کا اصول واضح ہے کہ رب کو کسی شکل میں بھی ناراض نہ کیا جائے اور شوہر کو محبت و احترام سے یہ بات سمجھائی جائے۔
اگر شوہر اور ساس جان بوجھ کر دعوتی کام سے دْور رکھنے کے لیے گھریلو کاموں میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں حکمت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اس معاملے کو براہِ راست ٹکرائو اور گرما گرم جنگ کی شکل نہ بننے دیں۔ حکمت کے ساتھ مسلسل کوشش کریں۔ اگر اس کے باوجود آپ کو دعوتی کام کرنے کی فرصت نہ مل سکے تو جو گھریلو کام بھی آپ نے اس دوران کیا ہے اس کا اجر دعوتی کام کے برابر ہی آپ کو ملے گا کیونکہ دین میں آپ کی نیت اور آپ کا اخلاص ہی اجر کی بنیاد ہے۔ دو تین ماہ صبر کے ساتھ اور حکمت سے کوشش کیجیے‘ ان شاء اللہ آپ کے شوہر بھی آپ کی طرح کارکن بن جائیں گے۔ فی الوقت گھر کے ماحول کو پْرسکون اور مودت و رحمت سے معمور کیجیے۔ یہی دعوتی حکمت کا تقاضا ہے۔
nn