مزید خبریں

بھلائی کی طلب

شخصیت کے ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ انسان اچھی سے اچھی چیزوں سے محبت کرے اور کسی برائی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے، خواہ وہ کتنی چھوٹی ہو۔
اللہ کے رسولؐ کی اس دعا کے لفظ لفظ پر غور کیجیے:
’’اے اللہ میں تجھ سے سارے کا سارا خیر مانگتا ہوں، جو ابھی مل جائے وہ بھی اور جو بعد میں ملے وہ بھی، جو میں جانتا ہوں وہ بھی اور جو نہیں جانتا ہوں وہ بھی۔ اور میں سارے کے سارے شر سے پناہ مانگتا ہوں، حال کے شر سے بھی اور مستقبل کے شر سے بھی، جو مجھے معلوم ہے اس سے بھی اور جو معلوم نہ ہو اس سے بھی۔ اے اللہ میں تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں جو تیرے بندے اور نبی (ص) نے تجھ سے مانگا، اور اس شر سے پناہ چاہتا ہوں جس سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ چاہی۔ اے اللہ میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور ہر وہ قول اور عمل مانگتا ہوں جو جنت سے قریب کردے، اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس قول یا عمل سے جو دوزخ سے قریب کردے۔ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے سلسلے میں جو بھی فیصلہ فرما اسے خیر بنادے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
یہ دعا کیا ہے، خیر کے سارے خزانوں کی طلب ہے۔ اگر ایک انسان اپنی زندگی میں ہر طرح کے خیر کو تلاش کرنے لگے اور کسی طرح کے شر کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے تو اس کی زندگی ستاروں بھرے آسمان سے زیادہ دل کش ہوجائے۔
غور کریں کہ اس دعا میں خیر کی طلب کتنے طریقوں سے کی گئی ہے۔ ویسے تو یہ کہنا کافی تھا کہ یا اللہ میں تجھ سے سارا خیر مانگتا ہوں، لیکن حال کا بھی اور مستقبل کا بھی، معلوم بھی اور نامعلوم بھی، وہ سارا خیر جو اللہ کے رسول نے مانگا، پھر جنت اور جنت سے قریب کرنے والا ہر قول اور ہر عمل۔ اس سب پر مزید یہ کہ تقدیر کے ہر فیصلے میں خیر ہو۔
اس دعا میں یہ تعلیم بھی بہت اہم ہے کہ آدمی کو اگر جنت کی طلب ہو تو اسے ہر اس عمل اور ہر اس قول کی جستجو کرنی چاہیے جو جنت سے قریب کرے اور اگر وہ دوزخ سے نجات چاہتا ہو تو اسے ہر اس عمل اور ہر اس قول سے دور رہنا چاہیے جو دوزخ سے قریب کرنے والا ہو۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ زندگی گزارتے ہوئے آدمی اپنے قول و عمل کی بنا پر جنت یا دوزخ سے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے جھوٹی امیدوں کے سہارے جینے کے بجائے اپنی ساری توجہ اپنے قول وعمل پر رکھنی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس دعا سے سچی تمنائیں اور سنجیدہ کوششیں جنم لیتی رہیں، تو انسان بہترین شخصیت کا مالک ہوجائے اور اس کو اس دنیا ہی میں آخرت کی کامیابی کی بشارتیں ملنے لگیں۔