مزید خبریں

تربیتِ اولاد… روشن نمونے

اولاد کی تربیت کے تعلق سے ماضی کے اوراق میں عظیم ماؤں کی عظیم داستانیں مل جاتی ہیں، لیکن شخصیت سازی میں عظیم والد کے احسانات بھی بھلائے نہیں جاسکتے۔ آئیے ہم تاریخ سے کچھ سنہرے پدرانہ نقوش پیش کرتے ہیں تاکہ بچوں کی تربیت کے تئیں فرض شناس والد کا تصور روشن ہوکر سامنے آجائے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام: عظیم برگزیدہ نبی ہیں۔ قرآن مجید نے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو نمونہ کہا ہے۔ عیدالاضحی ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے نادر اور اہم پہلوؤں کی یاددہانی کراتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کا قربانی کے لیے تیار ہوجانا اور اپنے والد کو آنکھ پر پٹی باندھنے کا مشورہ دینا ان کی اعلی پائے کی تربیت اور عمدہ پرورش کی عکاسی کرتا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام لمبی عمر تک اولاد کی دعا مانگتے رہے پھر اولاد کی پیدائش کے بعد اولاد کے حق میں اور آئندہ نسلوں کے حق میں دعائیں کرتے رہے۔ بطور والد ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ اپنے آپ میں بہترین عملی نمونہ رکھتا ہے۔
سیدنا یعقوب علیہ السلام: سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹے سیدنا یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک انوکھا خواب دیکھا اور اپنے ابا حضور سے بیان فرمایا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام جان گئے کہ اس خواب میں عظیم خوش خبری پنہاں ہے۔ ان کے بیٹے کو نبوت اور اقتدار حاصل ہونے والا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے بیٹے خواب سے اشارہ پاکر حسدکا شکار ہوجائیں اور یوسف علیہ السلام کے خلاف کوئی سازش کریں۔ اس لیے انھوں نے اپنے فرزند یوسف علیہ السلام کو اپنا خواب دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا۔ باپ بیٹے کی مختصر سی گفتگو ان دونوں کی آپسی دوستی اور رازداری کا پتا دیتی ہے۔ بحیثیت والد یعقوب علیہ السلام کی دوراندیشی قابل تعریف ہے، کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شیطان ان کے بچوں کے درمیان فتنہ برپا کرے۔
سیدنا لقمان علیہ السلام: سیدنا لقمان علیہ السلام کے نام سے قرآن میں ایک سورہ منسوب ہے۔ قرآن نے ان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں نقل فرمائی ہیں۔ لقمان علیہ السلام دانش ور اور سلیم العقل انسان تھے اس لیے انھوں نے دانائی کا نچوڑ اور عمر بھر کی غور و فکر سے حاصل حکمتیں بیٹے میں منتقل کردیں۔ یہ واقعہ اشارہ دیتا ہے کہ والد کا کردار صرف بچوں کو تعلیم دلوانے تک ہی نہیں بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کرنے کے لیے بھی وہ ذمے دار ہے۔
امام مالک کے والد: امام مالکؒ کے والد اپنے زمانے کے محدث تھے اور انھی کی بدولت گھر میں حدیث و فقہ کا ماحول تھا۔ ان کے والد بچوں سے اکثر سوالات کرکے ان کا جائزہ لیا کرتے۔ دل چسپ واقعہ کچھ یوں ہے کہ امام مالک کو بچپن میں کبوتر بازی اور گانے کا شوق ہوچلا تھا۔ وہ سوچا کرتے کہ وہ بڑے ہو کر ایک اچھے گلوکار بن سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے والد نے دونوں بھائیوں کا جائزہ لینے کے لیے سوالات پوچھ لیے جس کے جوابات امام مالک کے بھائی تو دے سکے لیکن امام مالک نہیں دے سکے۔ جس پر والد صاحب نے انھیں تنبیہ کی کہ ان کبوتر وں نے تمھیں برباد کردیا جب کہ تمھارا بھائی علم میں آگے بڑھ رہاہے۔ اور پھر وہ چیلنج امام صاحب نے دل پر ایسا لیا کہ مدینہ منورہ کی علمی تاریخ کے عظیم الشان استاذ بن گئے۔ معلوم ہوا کہ بچوں کے تعلیمی و تدریسی معاملات میں یوں بھی کردار نبھایا جاتا ہے۔
امام غزالیؒ کے والد: امام غزالیؒ کے والد پیشے سے درزی تھے۔ انھیں اپنے ان پڑھ ہونے پر پچھتاوا رہا اور اسی لیے بچوں کو تعلیم دلوانے میں خوب محنت کیا کرتے۔ جب انتقال کا وقت قریب آیا تو اپنے دونوں بیٹوں کو مصارف تعلیم کے ساتھ ایک دوست کے حوالے کرگئے کہ ’’میں لکھنے پڑھنے سے قاصر رہا۔ ان دونوں کو تعلیم دلائی جائے تاکہ میری جہالت کا کفارہ ہوسکے‘‘۔ امام غزالی اپنے والد بزرگوار کے خلوص و سنجیدگی، سچی تڑپ اور کڑی محنت اور مقبول دعاؤں کا نتیجہ تھے۔
نبی کریمؐ: تمام نمونوں سے اعلی و ارفع نمونہ اللہ کے آخری نبی محمدؐ کا ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر کردار کامل اور حسین و جمیل ہے نبی کریمؐ اپنی بیٹیوں بیٹوں اور نواسوں نواسیوں کے لیے شفقت ومحبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ اپنی چھوٹی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا گرم جوشی سے کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور انھیں پیشانی پر بوسہ دیتے۔ نواسوں کے لیے سواری بن جاتے اور ان کے ساتھ کھیلا کرتے۔ سیدہ رقیہؓ کی بیماری میں فکر مند ہونا، سیدہ زینبؓ کو مکہ سے مدینہ لانے کا انتظام کرنا، سیدہ فاطمہؓ کی شادی کے بعد بھی ان کے گھریلو مسائل حل کرنا وغیرہ وہ باتیں ہیں جو ایک ذمے دار، سنجیدہ اور پر وقار والد ہونے کا پتا دیتی ہیں۔ بلاشبہ آپ انسانی تاریخ کے بہترین اور مثالی باپ تھے۔