مزید خبریں

قَلب و جسم

نبی کریمؐ کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کو بھی بدلا، ان کی سوسائٹی بھی بدلی اور ان کی پوری دنیا بھی بدل دی۔ اس کام کو آپؐ نے کیسے سرانجام دیا، وہ کون سی کنجی تھی جس سے آپؐ نے لوگوں کی زندگیوں کے تالے کھول دیے اور ان کو بدل کر ان کے ذریعے سے ساری دنیا کو بدل دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب درج ذیل حدیث میں دیا گیا ہے۔
’’بے شک حلال واضح اور صاف ہے اور بے شک حرام بھی واضح اور صاف ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہہ والی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تو جس نے اپنے آپ کو شبہے والی چیزوں سے بچایا اس نے اپنے دین کو اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا۔ اور جو مشتبہ چیزوں کے اندر پڑ گیا تو پھر وہ حرام میں پڑ گیا۔ جس طرح کہ کوئی چَرانے والا کسی بادشاہ کی مخصوص چراگاہ کے گرد جائے اور قریب ہے کہ وہ اسی چراگاہ کے اندر داخل ہوکر چَرنا شروع کردے۔ اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ اللہ کی چراگاہ وہ چیزیں ہیں جن کو اس نے حرام کیا ہے۔ اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سدھر جائے تو ساراجسم سدھر جاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ یہ قلب ہے‘‘۔ (بخاری)
’’ قلب‘‘ سے مراد
پہلا سوال یہ ہے کہ یہاں قلب کا کیا مطلب ہے؟ حدیث کے الفاظ تو یہ بتاتے ہیں کہ جسم میں دل کی شکل میں گوشت کا جو ٹکڑا ہے، آپؐ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے لیکن قرآن مجید اور حدیث میں قلب کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام قلب ہے۔ یہ جسم فنا ہوجائے گا اور انسان کی روح جس کو قرآن مجید میں قلب بھی قرار دیا گیا ہے وہ باقی رہ جائے گی۔ انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو قلب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کی طرف قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اشارہ کیا گیا ہے، مثلاً عقل اور سمجھ بوجھ، شعور اور احساس، ان سب کا مرکز بھی قرآن کی زبان میں قلب ہے۔ ’’ان کے دل ہیں لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ہیں‘‘۔ (الاعراف: 179) یا یہ کہ کیا ان میں ایسے لوگ نہیں تھے جن کے پاس دل ہوتے اور وہ اپنی عقل سے کام لیتے۔ لہٰذا قرآن میں عقل، تفکر اور سمجھ بوجھ کا مرکز بھی قلب کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوا: ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ (محمد: 24) گویا تدبر، یعنی قرآن پر غور و خوض کا مرکز بھی قلب ہے۔
قلب کا لفظ جن دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہ ہماری خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات دنیوی چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں، ان سے اعلیٰ چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہیں۔ ان خواہشات کا مرکز بھی قلب ہے۔ اسی طرح جو جذبات انسان کے اندر ہوتے ہیں، مثلاً شفقت کا جذبہ‘ محبت کا جذبہ‘ نرمی کا جذبہ‘ نفرت اور غصے کا جذبہ‘ ان سب کا مرکز بھی قرآن و حدیث کی رو سے انسان کا قلب ہے۔ اور سب سے آخر میں وہ چیز جو انسان کوانسان بناتی ہے‘ یعنی اس کا ارادہ اور نیت۔ وہ ارادہ‘ جس سے وہ اپنے اعضا کو حرکت دیتا ہے‘ کام کرتا ہے‘ کچھ چیزوں کو طلب کرتا ہے اور کچھ چیزوں سے رک جاتا ہے‘ اس کے اس ارادے کا مرکز بھی قلب ہے۔ اس لحاظ سے قلب دراصل انسان کی شخصیت کا پورا مرکز ہے۔ ہاتھ پائوں نہ بھی رہیں‘ کٹ جائیں‘ ختم ہوجائیں‘ جسم کے اور دوسرے اعضا بھی ناکارہ ہوجائیں لیکن ایک چیز انسان کی شخصیت ہے‘ وہ باقی رہتی ہے۔ اسی کو قلب کہا گیا ہے۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے کہ حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ’’گوشت کا ایک ٹکڑا‘‘ ہے تو اس سے کیا مطلب ہے؟ اس بارے میںہمارے محدثین نے کافی لکھا ہے اور لوگوں کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک عقل دماغ میں ہے اور بعض کے نزدیک دل میں ہے۔ سائنس کی رو سے بھی گوشت کا یہ ٹکڑا صرف اتنا کام کرتا ہے کہ خون پمپ کرتا رہے اور باقی انسان کے سارے جذبات اور سوچ سمجھ کا مرکز اس کا دماغ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث حدیث سے بالکل غیر متعلق ہے اور میری رائے میں حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم یہ متعین کریں کہ فی الواقع یہ دماغ ہے یا قلب۔ جب انسان آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر اور ادب کے پیرایے میں بات کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس یہ کہتی ہو کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ سورج نکل آیا اور سورج ڈوب گیا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ زمین نکل آئی اور زمین ڈوب گئی۔ اسی طرح ہماری زبان کے اندر معروف محاورہ یہ ہے کہ میرا دل یہ کہتا ہے‘ میرا دل یہ چاہتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو ادب کی زبان ہے اور اس لحاظ سے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ متعین کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے کہ عقل کا مرکز کہاں ہے اور دماغ کا مرکز کیا ہے۔ قرآن نے یہ لفظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔
جَسد سے مراد
دوسرا سوال یہ ہے کہ جسد سے کیا مراد ہے؟ جب جسم کہا تو اس سے ظاہری جسم مراد ہے یا کچھ اور۔ یہاںاس سے ہمارا یہ جسم مراد ہے۔ اس کی طرف محدثین نے اشارہ کیا ہے اور یوں کہا ہے کہ جسم کی حیثیت رعایا کی ہے اور قلب کی حیثیت بادشاہ کی۔ جس طرح رعایا بادشاہ کے ماتحت ہوتی ہے‘ اسی طرح یہ ہاتھ پائوں‘ ناک کان‘ آنکھ ہر چیز قلب کے تابع ہے۔ آنکھ وہ چیز نہیں دیکھے گی جو دل دیکھنا نہ چاہے بلکہ وہی چیز دیکھے گی جس کو دل دیکھنا چاہے گا۔ ہاتھ وہ چیز نہیں کمائے گا جس کے بارے میں دل نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ نہیں کمانا چاہیے اور وہی چیز کمائے گا جس کے بارے میں دل یہ فیصلہ کرلے کہ اسے کمانا چاہیے۔ یہ سارے اعضا رعیت ہیں‘ رعایا ہیں اور قلب کی حیثیت ایک بادشاہ کی ہے۔جسد کے دو اور معنی بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم اس کو ایک استعارہ سمجھیں۔ ایک تو یہ کہ جسد سے مراد وہ شریعت ہے جس کا ذکر حدیث کے پہلے ٹکڑے میں ہوچکا ہے اور یہاں سے ان دونوں کا ربط قائم ہوتا ہے کہ وہ شریعت جو حلال اور حرام کو واضح کرتی ہے‘ اس شریعت کے قائم ہونے کے لیے قلب کی بنیاد اور قلب کی قوت ضروری ہے۔ احکام کی اطاعت کے لیے سینے کے اندر دل بیدار ہونا چاہیے۔ سننے کے لیے‘ سمجھنے کے لیے‘ دیکھنے کے لیے‘ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے‘ صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے‘ صحیح راہ پر چلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دلِ بیدار موجود ہو۔
اس کے دوسرے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ جسد سے دراصل پوری انسانی زندگی مراد ہے۔ اس کی انفرادی زندگی بھی اور اجتماعی زندگی بھی‘ اور اس کی زندگی کا ہر پہلو۔ اگر دل میں سکون ہے تو زندگی میں سکون ہوگا‘ اگر دل میں اطمینان ہے تو زندگی میں اطمینان ہوگا‘ اگر دل میں اچھے خیال آتے ہیں تو زندگی اچھے راستے پر جائے گی۔ اور اگر دل میں برے خیال آتے ہیں تو زندگی برے راستے پر جائے گی۔ اجتماعی طور پر بھی جو خرابیاں قوم کے اندر پیدا ہوتی ہیں‘ لوٹ مار‘ خون خرابہ یا ڈاکے پڑنا وغیرہ ان سب کے پیچھے اصل خرابی دل کی خرابی ہوتی ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے‘ اس لیے کہ اس کے دل میں خرابی ہوتی ہے اور وہ غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ گویا اس حدیث کی رو سے اصلاح کاراستہ قلب ہے۔ اگر قلب کی اصلاح ہوگی تو آدمی کے اعضا بھی صحیح کام کریں گے‘ شریعت کی اطاعت کی قوت بھی اس کے اندر پیدا ہوگی اور پوری انسانی زندگی کی اصلاح ہوجائے گی۔ اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو تو پھر اعضا بھی غلط کام کریں گے‘ شریعت بھی کتابوں میں لکھی رہ جائے گی اور اس پر عمل نہیں ہوگا۔ یوں پوری انسانی زندگی کے اندر بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔