مزید خبریں

جھوٹ کو پہلے برا سمجھا جاتا تھا ،اب مہارت و فنکاری شمار کیا جاتا ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) جھوٹ کو پہلے برا سمجھا جاتا تھا‘ اب مہارت و فنکاری شمار کیا جاتا ہے‘ ایمان کی کمزوری اور حکمران طبقے کی کرپشن کے باعث معاشرے میں مختلف برائیاں پھیل رہی ہیں‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے‘ سچائی میں ہماری فلاح کا راز ہے۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر علامہ محمد جاو ید قصوری، جامعہ پنجاب کے امور طلبہ کے سابق نگراں اور ادارۂ تعلیم و تحقیق کے سابق استاد، پروفیسر ڈاکٹر وقار علی کاری اور پاکستان ریلوے کی سودے کار پریم یونین کے مرکزی صدر شیخ محمد انور نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرہ جھوٹ کو گناہ کیوں نہیں سمجھتا؟‘‘محمد جاوید قصوری نے کہا کہ جھوٹ کو گناہ نہ سمجھنے کے متعدد اسباب ہیں ‘ جن میں قوم میں مجموعی طور پر ذہنی و فکری تربیت کا فقدان ہے‘ سالہا سال سے ہم جس نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اس میں حکمران طبقہ اور ارباب حل و عقد کے قول و فعل میں جھوٹ، لالچ، مفاد پرستی اور وعدہ خلافی کا چلن عام ہے جس کے اثرات عام آدمی پر بھی مرتب ہوئے ہیں‘ مادہ پرستانہ سوچ نے بھی جھوٹ کی لعنت کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ بحیثیت مسلمان پختہ ایمان اور اس کے تقاضے ہمارے دل و دماغ میں راسخ نہیں ہیں‘ آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کا بھی شدید فقدان ہے‘ موجودہ پریشان کن حالات سے نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ جھوٹ سے ہر حال میں بچا جا ئے اور سچائی کو مضبوطی سے اختیار کیا جائے اسی میں ہماری انفرادی اور اجتماعی فلاح کا راز ہے۔ ڈاکٹر وقار علی کاری نے کہا کہ جھوٹ کو گناہ نہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دینی و اخلاقی اقدار آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں‘ مجموعی طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ترک کر دیا گیا ہے جس سے مختلف برائیوں میں اضافہ ہوا ہے‘ جھوٹ کو پہلے برا سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے ایک گناہ کے بجائے مہارت و فنکاری شمار کیا جاتا اور غلط بیانی کو کامیابی کا زینہ تصور کیا جاتا ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک ہونے سے جھوٹ ہی نہیںدیگر برائیاں رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، دھوکا دہی اور وعدہ خلافی وغیرہ بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں‘ عدالتوں، سرکاری دفاتر، عوامی مجالس اور ذرائع ابلاغ پر کھلے عام جھوٹ بولا جا رہا ہے یہ ایک فیشن اور رواج کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ اسی طرح بے حیائی،فحاشی، لعن طعن، غیبت اور دیگر رذائل اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ معاشرے نے انہیں برائیوں کے بجائے روز مرہ کے امور کے طور پر قبول کر لیا ہے‘ جھوٹ پر ہمارا سارا معاشرہ چل رہا ہے۔ شیخ محمد انور نے کہا کہ جھوٹ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے جب کہ شرابیوں، قاتلوں، جواریوں اور دیگر بہت سارے جرائم میں مبتلا لوگوں کے لیے اس قدر سخت وعید موجود نہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ شعور ہی نہیں کہ جھوٹ بول کر کتنا بڑا جرم کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری اقدار تنزلی سے دو چار ہو چکی ہیں۔ اس کے برعکس غیر مسلم معاشرے میں آج بھی جھوٹ کے خلاف نفرت ہم سے زیادہ پائی جاتی ہے‘ ہماری اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ ہم بلا ضرورت اور بلاوجہ قدم قدم پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں‘ والدین بچوں سے، اساتذہ طلبہ سے، حکام ماتحتو ں سے ۔ اتنے بڑے گناہ کے بارے میں ہمارا احساس جرم ہی ختم ہو گیا ہے جب تک اس احساس اور شعور کو عام نہیں کیا جائے گا ہم جھوٹ کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے۔