مزید خبریں

قربانی کے احکامات

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو‘‘۔ (مسند احمد) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
قربانی کا وقت
قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اللہؐ نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر
بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اور دنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور میں شرکا کی تعداد
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا (بکری، مینڈھا، دنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (اعلاء السنن۔ باب ان البدنہ عن سبعہ)
سیدنا جابرؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپؐ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم۔ باب جواز الاشتراک)
قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا
عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو ، وغیرہ وغیرہ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
بھینس کی قربانی کا حکم
جمہور علما کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس پر بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔
خود قربانی کرنا افضل ہے
نبی اکرمؐ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے۔
قربانی کا گوشت
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتے داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غربا ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علمائے کرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا حصہ رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غربا ومساکین کے لیے، لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں۔
میت کی جانب سے قربانی
جمہور علمائے امت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرمؐ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپؐ زندہ افراد کے لیے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ علیؓ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرمؐ نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لیے میں آپؐ کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی)
قربانی کرنے والے کے لیے مستحب عمل
ام المؤمنین ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں، قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔