مزید خبریں

خطبہ حجۃ الوداع

رسول اللہؐ کے آخری آنسو، جو اس امت کے غم میں بہے، حجۃ الوداع کے خطبے میں جمع ہیں، اس وقت دولت وحکومت کا سیلاب مسلمانوں کی طرف امڈا چلا آرہا تھا اور رسول اللہؐ کو غم یہ تھا کہ دولت کی یہ فراوانی، آپ کے بعد آپ کی امت سے رابطے و اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گی۔ اس لیے اتحاد امت کا موضوع اپنے سامنے رکھ لیا اور پھر درد نبوت کی پوری توانائی اس موضوع پر صرف فرمادی۔ پہلے نہایت ہی درد انگیز الفاظ میں قیام اتحاد کی اپیل کی۔ پھر فرمایا کہ پسماندہ طبقات کو شکایت کا موقع نہ دینا تاکہ حصاراسلام میں کوئی شگاف نہ پڑجائے۔ پھر اسباب نفاق کی تفصیل پیش کر کے ان کی بیخ کنی کا عملی طور پر سر وسامان فرمایا۔ پھر واضح کیا کہ جملہ مسلمانوں کے اتحاد کا سنگ اساس کیا ہے؟ آخری وصیت یہ فرمائی کہ ان ہدایات کو آئندہ نسلوں میں پھیلانے اور پہچانے کے فرض میں کوتاہی نہ کرنا۔ خاتمۂ تقریر کے بعد نبیؐ نے اپنی ذاتی سرخروئی کے لیے حاضرین سے شہادت پیش کرتے ہوئے اس طرح بار بار اللہ کو پکارا کہ مخلوق خدا کے دل پگھل گئے، آنکھیں پانی بن گئیں اور روحیں انسانی جسموں کے اندر تڑپ تڑپ کر الامان اور الغیاث کی صدائیں بلند کرنے لگیں۔
حمد و صلوۃ کے بعد خطبۂ حج کا پہلا درد انگیز فقرہ یہ تھا:
’’اے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں کبھی دوبارہ جمع نہیں ہوں گے‘‘۔
اس ارشاد سے اجتماع کی غرض وغایت بے نقاب ہو کر سب کے سامنے آ گئی اور جس شخص نے بھی یہ ارشاد سنا، تڑپ کے رہ گیا۔ اب اصل پیغام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہارا ننگ وناموس، اسی طرح ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ دن (جمعہ) یہ مہینہ (ذوالحج) اور یہ شہر (مکہ مکرمہ) تم سب کے لیے قابل حرمت ہے‘‘۔
اسی نکتے پر مزید زور دے کر ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! آخر تمہیں بارگاہ ایزدی میں پیش ہونا ہے، وہاں تمہارے اعمال کی بازپرس کی جائے گی۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جائیو کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا شروع کردو‘‘۔
رسول پاکؐ کی یہ درد مندانہ وصیت زبان پاک سے نکلی اور تیر کی طرح دلوں کو چیر گئی۔ اب ان نفاق انگیز شگافوں کی طرف توجہ دلائی، جن کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ تھا، یعنی اقتدار اسلام کے بعد غریب اور پسماندہ گروہوں پر ظلم کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں فرمایا:
’’اے لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنا۔ تم نے نام خدا کی ذمے داری سے انہیں زوجیت میں قبول کیا ہے اور اللہ کا نام لے کر ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ غیر کو تمہارے بستر پر نہ آنے دیں، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں ایسی مار مارو جو نمایاں نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ انہیں بافراغت کھانا کھلاؤ اور بافراغت کپڑا پہناؤ‘‘۔
اسی سلسلے میں فرمایا:
’’اے لوگو! تمہارے غلام، تمہارے غلام… جو خود کھاؤ گے، وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو گے، وہی انہیں پہناؤ‘‘۔
عرب میں فساد وخون ریزی کے بڑے بڑے موجبات دو تھے۔ ادائے سود کے مطالبات اور مقتولوں کے انتقام۔ ایک شخص دوسرے شخص سے اپنے قدیم خاندانی سود کا مطالبہ کرتا تھا اور یہی جھگڑا پھیل کر خون کا دریا بن جاتا تھا۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کو قتل کر دیتا، اس سے نسل بعد نسل قتل وانتقام کے سلسلے جاری ہو جاتے تھے۔
رسول اللہؐ ان دونوں اسبابِ فساد کو باطل فرماتے ہیں:
’’اے لوگو! آج میں جاہلیت کے تمام قواعد ورسوم کو اپنے قدموں سے پامال کرتا ہوں۔ میں جاہلیت کے قتلوں کے جھگڑے ملیا میٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے، جسے ہذیل نے قتل کیا تھا، دست بردار ہوتا ہوں۔ میں زمانہ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی سود، عباس بن عبد المطلب کے سود سے دست بردار ہوتا ہوں‘‘۔
سود اور خون کے قرض معاف کر دینے کے بعد فرد عدالت نفاق کی طرف متوجہ ہوئے اور ورثے، نسب، مقروضیت اور تنازعات کے متعلق فرمایا:
’’اب اللہ تعالیٰ نے ہر ایک حق دار کا حق مقرر کر دیا ہے، لہذا کسی کو وارثوں کے حق میں وصیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بچہ جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، اس کو دیا جائے اور زنا کاروں کے لیے پتھر ہے اور ان کی جواب دہی اللہ پر ہے۔ جو لڑکا باپ کے سوا کسی دوسرے نسب کا دعویٰ کرے اور غلام اپنے مولا (آقا) کے سوا کسی اور طرف اپنی نسبت کرے، ان پر خدا کی لعنت ہے۔ عورت شوہر کے بلا اجازت اس کا مال صَرف نہ کرے، قرض ادا کیے جائیں، عاریت واپس کی جائے۔ عطیات لوٹائے جائیں اور ضامن تاوان ادا کرنے کا ذمے دار ہے‘‘۔
اہل عرب کے نزاع اور اسبابِ نزاع کا دفعیہ ہو چکا تو اس بین الاقوامی تفریق کی طرف توجہ دلائی جو صدیوں کے بعد عرب و عجم یا گورے اور کالے کے نام سے پیدا ہونے والی تھی۔ ارشاد فرمایا:
’’ہاں اے لوگو! تم سب کا خدا بھی ایک ہی ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہی ہے، لہذا کسی عربی کو عجمی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر، کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی پیدائشی برتری یا امتیاز حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں افضل وہی ہے جو پرہیز گاری میں افضل ہو۔ ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک برادری ہیں‘‘۔

اتحادِ اسلام کی مستقل اساس کی طرف رہنمائی فرمائی:
’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے۔ پس تم سب اپنے اللہ کی عبادت کرو۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالو۔ اللہ کے گھر کا حج کرو۔ حُکام امت کے احکام مانو اور اپنے اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرلو‘‘۔
آخر میں فرمایا:
ایک دن اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کرے گا، تم اس وقت کیا جواب دو گے؟
اس پر مجمع عام سے پر جوش صدائیں بلند ہوئیں:
انک قدبلغت: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے تمام احکام پہنچا دیے‘‘۔
وادیت: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرض رسالت ادا کردیا‘‘۔
ونصحت: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے کھرے کھوٹے کو الگ کردیا‘‘۔
اس وقت سرورعالمؐ کی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھی۔ ایک دفعہ آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور دوسری دفعہ مجمع کی طرف اشارہ فرماتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
اللھم اشھد: ’’اے اللہ! خلق خدا کی گواہی سن لے‘‘۔
اللھم اشھد: ’’اے اللہ! مخلوق خدا کا اعتراف سن لے‘‘۔
اللھم اشھد: ’’اے اللہ! گواہ ہو جا‘‘۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا:
’’جو لوگ موجود ہیں، وہ ان لوگوں تک جو یہاں موجود نہیں ہیں، میری ہدایات پہنچاتے چلے جائیں۔ ممکن ہے کہ آج کے بعض سامعین سے زیادہ پیام تبلیغ کے سننے والے اس کلام کی محافظت کریں۔ (صحیح بخاری ج، 1، ص 234 نور محمد کراچی 1961)
nn