مزید خبریں

آنجہانی اینڈریو سائمنڈز نے جب پاکستان کے ہاتھ سے میچ چھین لیا

ورلڈ کپ 2003 پاکستانی ٹیم کے لیے بہت بری یادیں لیکر ختم ہوا تھا اس ورلڈکپ نے پاکستان کے 2 بہترین کھلاڑیوں وسیم اکرم اور وقار یونس کا کیرئیر ختم کردیا جبکہ کچھ کھلاڑیوں کا خطرے میں ڈال دیا تھا۔ مزکورہ ورلڈکپ میں پاکستان کا پہلا میچ دفاعی چیمپئین آسٹریلیا سے تھا آسٹریلیا کی ٹیم ہمیشہ سے سخت جان حریف رہی ہے اور اکثر پلڑا آسٹریلیا کے حق میں رہتا ہے۔ پاکستا نی ٹیم 1999 کے ورلڈکپ فائنل میں فیورٹ ہوتے ہوئے بھی شرمناک شکست سے دوچار ہئی تھی۔2003 کے ورلڈکپ کے میچ میں جوہانسبرگ کا گراؤنڈ بھی کچھ ایسا ہی مسودہ لکھ گیا۔ پاکستان کے کپتان وقار یونس نے ایک زبردست بیٹنگ پچ پر ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا ناقابل فہم فیصلہ کیا اور پھر ابتداء میں کامیابیاں ملنے کے باوجود میچ نہ سنبھال سکے پاکستان کی طرف سے لیجنڈ وسیم اکرم نے پہلا اسپیل بہت اچھا کیا اور صرف 52 کے اسکور پر3 بہترین کھلاڑیوں کو گھر بھیج دیا دوسرے اینڈ سے شعیب اختر بھی عمدہ بولنگ کررہے تھے دونوں نے مل کر 86 رنز پر پونٹنگ سمیت سارے اچھے بلے باز پویلین لوٹادئیے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ میچ مکمل پاکستان کی گرفت میں ہے۔لیکن پاکستانیوں کے خواب کو ایک قدرے نئے کھلاڑی اینڈریو سائمنڈز نے ملیا میٹ کردیا۔سائمنڈز نے آتے ہی جارحانہ رویہ اختیار کیا اور بولرز کی کلاس لینا شروع کردی ان کی جارحانہ بلے بازی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وقار یونس جیسا تجربہ کار بولر اپنا لینتھ بھول گیا اور مسلسل 2 چیسٹ ہائی نو بال کرکے مزید بولنگ پر پابندی لگوا بیٹھے۔شاہد آفریدی واحد اسپنر تھے لیکن وہ بھی سائمنڈز کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ پاکستانی بولنگ کی زبوں حالی کا حال یہ تھا کہ یونس خان کو اوورز کا کوٹہ پورا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر لگتا تھا کہ آج آسٹریلیا بہت کم اسکور پر آؤٹ ہوجائے گا لیکن سائمنڈز کی تباہ کن بیٹنگ نے سارے خواب کرچی کرچی کردئیے۔سائمنڈز نے 18 چوکے اور 2 چھکے لگا کر حقیقت میں پاکستان سے میچ چھین لیا تھا۔ کینگروز جو رنز کو ترس رہے تھے مقررہ 50 اوورز میں 310 رنز بناگئے جس کا تن تنہا سہرا سائمنڈز کے سر تھا ان کی بیٹنگ نے پاکستان کو اس کی بیٹنگ سے قبل ہی شکست خوردہ کردیا تھا۔خودسر بچہ سائمنڈز: اگر کہا جائے کہ اینڈریو سائمنڈز آسٹریلیا کے شعیب اختر یا شاہد آفریدی تھے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کی خودسری اور بے باکی سے آسٹریلین مینیجمنٹ پریشان رہتی تھی وہ جتنے باصلاحیت تھے اپنے مزاج کے باعث کارکردگی دکھا نہ سکے۔ ان کے اور کوچز کے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیںرہے ان کے ایک کوچ تو کہتے تھے میں اس کو بیٹنگ کرتے نہیں دیکھ سکتا۔بنگلہ دیش کے دورے کے دوران وہ ٹیم میٹنگ چھوڑ کر مچھلی کے شکار پر چلے گئے تھے جس سے ان کی غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔انگلینڈ کے 2009 کے دورے میں جب میچز کے دوران ام الخبائث پر پابندی لگائی گئی تو انھوں نے جان بوجھ کر اس کو استعمال کیا اور انگلینڈ کے 2009 کے دورے میں جب میچز کے دوران ام الخبائث پر پابندی لگائی گئی تو انھوں نے جان بوجھ کر اس کو استعمال کیا اور نتیجے میں ان کو ڈراپ کردیا گیا۔ ہربھجن سنگھ کے ساتھ تنازع: بھارتی اسپنر ہربھجن سنگھ کے ساتھ سائمنڈز کی تلخ کلامی کرکٹ تاریخ کا سیاہ باب ہے جب 2008 کے سڈنی ٹیسٹ کے دوران ہربھجن سنگھ نے بیٹنگ کرتے ہوئے سائمنڈز کے لیے غلط زبان استعمال کی اور منکی ( بندر) کے لقب سے پکارا۔سائمنڈز اور امپائرزنے اس کو سنا اور رپورٹ کیا۔ یہ ایک تلخ ترین واقعہ تھا اور میچ ریفری نے پابندی عائد کی تاہم سچن ٹنڈولکر جو دوسری طرف بیٹنگ کررہے تھے ان کی گواہی کے باعث آئی سی سی نے پربھجن کو معاف کردیا تھا۔ جس پر سائمنڈز کبھی بھی خوش نہیں ہوئے۔ آسٹریلیا کی طرف سے کھیلنا خواب تھا: سائمنڈز اگرچہ انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں پیداہوئے اور ان کے والدین کا تعلق کیریبئین اور سوئیڈن سے تھا تاہم ان کی بچپن سے خواہش تھی کہ وہ گرین بیگی کیپ پہنیں۔وہ نوجوانی میں آسٹریلیا پہنچے اور کوئنز لینڈ کی طرف سے کھیلنا شروع کردیا اور جلد ہی قومی ٹیم کے سیلیکٹرز کی نگاہوں میں آگئے۔1998 میں دورہ پاکستان کے لیے وہ منتخب ہوئے اور لاہور میں پاکستان کے خلاف ایک روزہ میچ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کا آخری میچ بھی 2009 میں پاکستان کے خلاف ابوظہبی میں تھا۔وہ اپنے منہ پھٹ مزاج کے باعث ٹیم سے اندر باہر ہوتے رہے جس سے کارکردگی میں تسلسل نہ رہا اور بہت جلد کیرئیر ختم ہوگیا۔ 2009 کے بعد انھوں نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔آئی پی ایل جب شروع ہوئی تو وہ ابتدا سے اس کا حصہ تھے۔ دکن چیلینجرز نے انھیں اپنی ٹیم کے لیے خریدا اور وہ 3 سال اس کے لیے کھیلے تاہم 2011 میں ممبئی انڈینز کا حصہ بن گئے جہاں ان کے پرانے حریف ہربھجن سنگھ تھے لیکن اب دونوں اچھے دوست بن چکے تھے۔اس لیے سیزن اچھا گزرا لیکن کارکردگی دن بدن زوال پذیر تھی۔ ام الخبائث کی لت نے سائمنڈز کو کرکٹ سے دور کردیا۔ وہ پارٹیوں کے شوقین تھے جس سے کرکٹ پر توجہ کم ہورہی تھی۔ 2012میں انھوں نے کرکٹ کو مکمل خیر باد کہہ دیا حالانکہ اسوقت وہ محض 37 سال کے تھے اور مزید کھیل سکتے تھے۔ کرکٹ سے دور ہونے کے باوجود وہ اپنے مداحوں میں مقبول رہے اور اپنے بے باک بیانات سے ہمیشہ خبروں میں رہتے تھے۔ سائمنڈز مزاجاً محدود دورانئیے کی کرکٹ کے کھلاڑی تھے اسی لیے 198 میچوں میں 5098 رنز اور 133وکٹیں انکی صلاحیت کی آئینہ دار ہیں۔ محض 46 سال کی عمر میں ان کا دنیا سے چلے جانا ان کے مداحوں کے لیے ناقابل برداشت سانحہ ہے۔ کار حادثہ نے اگرچہ ان کو جسمانی طور پر شائقین سے چھین لیا لیکن ان کی باتیں اور ان کی کرکٹ ہمیشہ شائقین کرکٹ کے دلوں میں زندہ رہیں گی وہ ایک بلند حوصلہ کھلاڑی تھے اور بے خوف بلے بازی ان کا خاصہ تھا۔ وہ اعداد و شمار سے زیادہ جارحانہ بیٹنگ کو پسند کرتے تھے اور ان کے اس کھیل نے متعدد مرتبہ آسٹریلیا کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگایا۔ اپنے مخصوص انداز کے باعث اینڈریو سائمنڈز اپنے مداحوںکے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور تاریخ کرکٹ کا عنوان ان سے منسوب رہے گا۔