مزید خبریں

الحج و عرفہ

حج تو عرفہ ہے ، عرفہ تو عرفان ہے، عرفان تو معرفت ہے ، معرفت تو پہچان ہے اور بندے کومالک کی ذات کی ، اس کی رضا کی پہچان ہے ، اس عہد کی پہچان ہے، جس سےبندہ انجان ہے، مگر کہاں انجان ہے؟ یہ عہد ہی تو اس کا وجدان ہے ، وہ عہد جو روح انسانی کا ایقان ہے ، یہ ایقان ہی اس روح کی جان ، جس روح کے بغیر تو انسان ہی بے جان ہے –
یہ ایقان یہ عہد جس کا مشہود یوم عرفہ ہے اور جس کا مقام میدان عرفات ہے ، آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کو حاضر کر کے لیا گیا تھا – اس دن اس وقت جب مخلوق کی آنکھ پر عالم ناسوتی کا حجاب نہیں تھا۔نگاہ یقین نے اپنے خالق اپنے معبود اپنےالہ اپنے پروردگار اپنے رب کو پہچانا تھا، اور گواہی دی تھی – اس اقرار کے بعد مخلوق کو موت کی نیند سلا دیا گیا اور اس عہد کو اس کے شعور سے اوجھل مگر لاشعور میں محفوظ کر دیاگیا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ آئے دن دوسرے مذاہب و نظریات کے لوگ اسلام قبول کرکے اس کے دامن میں پناہ لیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی روحانی بےکلی کا علاج اور اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کے جواب قرآن کے سوا اور کہیں نہیں پاتے
یہ وہی لاشعور کی آگاہی ہے جس کو شعور کے تابع اور برتنے کا نام اسلام ہے – اس عہد کی ادائیگی کو ارکان اسلام کہاجاتا ہے ، اسی کی یاد تازہ کرنے کے لیے وقوف عرفات ہے جس کے لیے لوگ گھر بار یار اور وطن سب چھوڑ کر کر کفن کی صرف دو چادروں میں ننگے سر اور ننگے پیر کھلے آسمان تلے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ عہد الست یاد کرتے ہیں جب انھوں نے گواہی دی تھی کہ اے خالق تو ہی ہمارا معبود ہے اور اسی گواہی کے ناطے یوم عرفہ کو مشہود کہا گیا –
وہ عہد جس کو ہم نے اس دھوکے کی زندگی میں بھلادیا ہے۔اس عہد کی باز پرس ضرور ہونی ہے کہ عہد غلامی کا اقرار اپنے رب سے کرکے آنے والے نے کہاں تک عہد وفا کی پاسداری کی؟