مزید خبریں

حکومت معیشت کے نام پر مزدور سے چائے کی ایک پیالی بھی چھیننا چاہتی ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) حکومت معیشت کے نام پر مزدور سے چائے کی ایک پیالی بھی چھیننا چاہتی ہے‘ مسئلہ چائے کا نہیں‘ نااہل لیڈر شپ کا ہے ‘ اراکین اسمبلی اور افسر شاہی سے لگژری گاڑیاں، مفت پیٹرول، بجلی، گیس، علاج اور رہائش کی سہولت واپس لی جائے‘ غیر ضروری اخراجات کم اور پالتو کتوںکی درآمدی خوراک پر پابندی لگائی جائے۔ان خیالات کا اظہار سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر شفیق غوری، متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی کے سابق جنرل سیکرٹری اور سینئر صحافی اور اینکر پرسن شاہد غزالی،جماعت اسلامی کورنگی کراچی کے رہنما محمد شعیب، ورکرز یونین پورٹ قاسم کے سینئر ڈپٹی جنرل سیکرٹری  بدالواحد،پیارے کے صدر سید طاہر حسن، فضل منان باچا ایڈووکیٹ اور جماعت اسلامی لاہور کی کارکن اور لکھاری نبیلہ شہزاد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ کیا مزدور چائے بھی نہ پیئے؟‘‘ شفیق غوری نے کہا ہے کہ فرمان محترم احسن اقبال المعروف ارسطو کے مطابق غریب مزدور چائے بھی نہ پیئے چونکہ اس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ انہوں
نے کہا کہ وفاقی وزیر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا جناب کی حکومت نے مزدور و سفید پوش طبقے کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لیے صبح کے ناشتے کی چائے کا انتظام بھی کرسکے؟ وفاقی وزیر احسن اقبال نے سرکاری خزانہ سے 6 کروڑ روپے کی نئیV8 لگژری کار حاصل کی ہے جس کے ایک کلو میٹر کے فیول پر صرف 500 روپے خرچ ہوتے ہیں‘ اس کار پر وہ ہر ہفتے سرکاری خرچ پر اسلام آباد سے لاہور جاتے ہیں۔ ہمارا احسن اقبال کو مشورہ ہے کہ براہ کرم ہفتہ واری نجی دورہ کے لیے عوامی سواری فیصل موورز کی بس یا پھر ریل گاڑی کا استعمال کریں‘ اس طرح وہ زرمبادلہ کو بڑھانے اور کفایت شعاری کے لیے اپنا مثبت کردار انجام دیں۔ شاہد غزالی نے کہا کہ حکومت کے ایک وزیر نے اربوں روپے کا زرمبادلہ بچانے کے لیے تجویز دی ہے کہ دن بھر میں صرف ایک چائے کا کپ پیا جائے‘ اگر حکومت ملک کی معیشت ہماری چائے پر پابندی لگا کر بہتر کرسکتی ہے تو ہم بادل نخواستہ اپنے ملک کی خاطر یہ بھی کرلیں گے لیکن کیا حکومت اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرسکتی ہے‘ وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے بڑے بڑے وفود کے ہمراہ غیر ملکی دورے، وزیر اعظم کی پوری کابینہ سمیت لندن میں نوازشریف کی قدم بوسی، سستی شہرت کے لیے اخبارات کو اشتہارات دینے اور اراکین اسمبلی اور اعلیٰ افسران کو مراعات دینے سیکیا حکومتی خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا؟‘ اگر حکومت کو معیشت کو بہتر بنانا اور حکومتی خزانے پر بوجھ کم کرنا ہے تو افسر شاہی کی مراعات کو کم کرے‘ ان سے لگژری گاڑیاں واپس لی جائیں‘ ان کے لیے فری پیٹرول، بجلی، گیس، علاج اور رہائش کی سہولت ختم کی جائے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے ہر اس پاکستانی سے ایک کروڑ روپیہ قرض حسنہ کے طور پر وصول کیے جائیں جن کے بینک اکائونٹس میں 50 کروڑ روپے سے زاید ہوں یا جن کے پاس اس سے زایدکی پراپرٹی ہو‘ اس سے اربوں نہیں کھربوں روپے حاصل ہوں گے اور کوئی منافع یا سود بھی نہیں دینا پڑے گا‘ حکومت اپنے پیروں پر کھڑی بھی ہو جائے گی اور اپنے ہم وطنوں کو رقم واپس بھی کردے گی۔ محمد شعیب نے کہا کہ وزرا، مشیران اور اعلیٰ افسرکی شاہ خرچیوں پر نظر رکھی جائے‘ ان کے اخراجات اور کام چوریوں پر انہیں لگام ڈالی جائے‘ حکومت وقت معیشت کے نام پر مزدوروں سے چائے کی ایک پیالی بھی چھیننا چاہتی ہے‘ عوام معاشی طور پر پریشانی کا شکار ہیں اس میں انہیں چائے کی ایک پیالی ہی تو راحت دیتی ہے‘ ویسا بھی یہ ایک ایسا مشروب ہے جو امیر، غریب سبھی شوق سے پیتے ہیں‘ پابندی لگانی ہے تو اپنے پالتو کتوں کی درآمدی خوراک پر لگائیں‘ اپنا وہ پیسہ واپس لائیں جو بیرون ملک بے نامی اکاؤنٹس میں ہے۔ عبدالواحد نے کہا کہ حکمران اپنے اخراجات روز بروز بڑھا رہے ہیں‘ موسیقی کے سامان پر ٹیکس ختم کردیا‘ قوم کو کم بھائو پر راشن کی ضرورت ہے ‘موسیقی کے آلات کی نہیں‘ حکمرانوں میں تھوڑی سی شرم ہونی چاہیے ‘ عوام ان حکمرانوں سے نجات کے لیے اپنے اعمال ٹھیک کرکے اللہ کو راضی کریں۔ سید طاہر حسن نے کہا کہ زرمبادلہ بچانے کے لیے صرف مزدوروں کو نہیں بلکہ ہر طبقے، افسروں، حکمرانوں اور تاجروں کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گی‘ سب سے پہلا کام ’’اعتماد‘‘ کی بحالی اور دیانتداری ہے‘ پُرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی عاید کی جائے جہاں تک مزدور کی چائے کی بات ہے تو اب وہ بھی اس کی پہنچ سے دور ہوگئی‘ ایک پیالی چائے 50/60 روپے کی ہوگئی ہے۔ فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر مزدوروں کے چائے نہ پینے سے نہیں بڑھیں گے بلکہ غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات ختم کرنے سے بڑھیں گے۔ نبیلہ شہزاد نے کہا کہ مسئلہ چائے کا نہیں، مسئلہ ہماری انل لیڈرشپ کا ہے جو آئے دن قوم کو بے تکی کفایت شعاری کا درس دے کر اپنا مذاق بنواتیہے‘ یہ درست ہے کہ ہمیں ہر اس چیز کو کم استعمال کرنا چاہیے جو ہمیں باہر سے منگوانی پڑتی ہے لیکن اگر چائے کی بات کی جائے تو چائے پینے والی قوم اس کی ادائیگی اپنی جیب سے خود کرتی ہے حکومت نہیں کرتی‘ اس پر لاگت بھی ایک ارب ڈالر اور کچھ کروڑ روپے ہے لیکن احسن اقبال اور دوسرے حکومتی اراکین کو وہ تیل کیوں ناگوار نہیں گزرتا جس کی درآمد پر17 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ یہ ادائیگی قومی خزانہ کرتا ہے جبکہ اس تیل کا استعمال یہاں کے حکمران و افسران بے دریغ سے کرتے ہیں‘ اگر ملک کی معاشی صورت حال اتنی نازک ہے تو ہر بجٹ میں ان مگر مچھوں کی تنخواہوں و مراعات میں اضافہ کیوں کر دیا جاتا ہے؟