مزید خبریں

ہمارے معاشرے میں علما، دانشوروں کے بجائے اداکاروں ، کھلاڑیوں کو رول ماڈلز بنا لیا گیا

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) ہمارے معاشرے میں علما، دانشوروں کے بجائے اداکاروں، کھلاڑیوں کو رول ماڈلز بنا لیا گیا‘ مغرب میں بہتری کی وجہ رول ماڈلز نہیں‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ ہمارے عوام حکمرا ن، طاقتور طبقے سے زیادہ متاثر ہیں جو کرپشن اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں‘ عالی مرتبت علما کی کمی ہے ‘دہرے تعلیمی نظام کی وجہ سے اچھے دانشور پیدا نہیں ہو رہے۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر فرید احمد پراچہ، سیاسی و بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اور جرمنی میں مقیم پاکستان کے معروف دانشور و ادیب سرور ظہیر غزالی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’علما اور دانشور معاشرے کو رول ماڈلز کیوں فراہم نہیں کر رہے؟‘‘ فرید احمد پراچہ نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ اب وہ علما ، دانشور نہیں رہے بلکہ معاشرے کے رول ماڈلز کچھ اور افراد بن گئے ہیں‘ رول ماڈلز میں کہیں اینکر پرسن، صدا کار، اداکار، گلوکار اور کھلاڑی نظر آرہے ہیں جن کو اصل رول ماڈلز ہونا چاہیے تھا وہ معاشرے کے رول ماڈلز نہیں ہیں‘ ہمیں نئی نسل کو طعنہ زنی کرنے کے بجائے
دیکھنا چاہیے کہ علما اور دانشوروں نے رول ماڈلز بنے میں کیا کمی کی ہے‘ میری نظر میں ایک پہلو جو سامنے آیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ علما کا تاثر یہ بن گیا ہے کہ ان کی اکثریت فرقہ پرست ہے اور کسی حد تک یہ تاثر درست بھی ہے اب فرقہ پرست کے پیچھے معاشرہ یا نسل نو کس حد تک چل سکے گی اس میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوں گے جو مخصوص فرقوں سے تعلق رکھتے ہوں گے اور اپنے اپنے فرقوں سے کچھ نہ کچھ لذت بھی حاصل کریں گے لیکن عموماً اس میں بڑی کمی یہ رہ جاتی ہے،جو اتحاد امت کی بات نہیں کرتے ان کو معاشرہ رول ماڈلز تسلیم نہیں کرتا‘ دو سرا پہلو جو میری نظر میں سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ علما اور دانشور جدید دنیا سے بھی کٹے ہوئے ہیں‘ اگرچہ یہ تاثر اتنا بھی ٹھیک نہیں ہے‘ پھر بھی کسی حد تک ہے کہ آج کی دنیا اور نوجوان کے مسائل علما کا طبقہ پوری طرح سے سمجھنے سے قاصر ہے‘ اس لیے لوگ بھی ان سے کٹے رہتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پورے معاشرے کیپہنچ میں ہے‘ ہر فراد اپنے ہفتے کے 7دن اور روزمرہ کے کم ازکم 8 گھنٹے ان کے سامنے گزارتا ہے ایسے افراد کو ہفتے میں صرف ایک دن اور اس میں بھی آدھا گھنٹہ علما کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملتا ہے جس میں جمعے کے روز علما کرام کے خطبات کی صورت میں انہیں سننا ہوتا ہے اس میں بھی علما عموماً بہت کم تیاری کے ساتھ جمعے کا خطبہ دیتے ہیں بلکہ ایسے موضوعات جو لوگوںکو متاثر کریں ان کے بجائے علما ایسے موضوعات پر جوش خطابت کرتے ہیں جن کا آج کے ماحول سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ علما کرام کی اکثریت اپنے موضوعات میں فرقہ پرستی کو شامل کر لیتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہفتے میں 15سے 20 منٹ علما کو عوام کی ذہن سازی کے لیے ملتے ہیں وہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں اس لیے لوگوںکی اکثریت جمعے کے خطبے میں آخر میں آتی ہے ‘ اسی طرح کی کچھ ملی جلی چیزیں ہیں جس میں علما اور دانشور معاشرے کو رول ماڈلزنہیں دے سکے یا خود رول ماڈلز نہیں بن پائے‘ اگر چہ ہم سمجھتے ہیں‘ کئی علما سوشل میڈیا پر بہت مستعد نظر آتے ہیں ان کی وڈیو بھی بہت وائرل ہوتی ہیں لیکن ان کو بھی اس کام کے لیے بڑی محنت کرنی پڑی ہے‘ علما اور دانشوروں کومعاشرے کے انفرادی اور اجتماعی معاملات دونوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے‘ علما اور دانشورانفرادی اصلاح اور نظام حکومت کو درست سوچ دیں تاکہ وہ اس قوم کے ایک مرتبہ پھر رول ماڈلز ہوں گے۔ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ دراصل معاشرے میں مذہب ، عمر ، تعلیم، معاشی حیثیت کے حوالے سے مختلف طبقات ہیں یہی طبقات معاشرے کے افراد کے لیے رول ماڈلز کا کردار ادا کر تے ہیں جو افراد مذہبی رجحان کے حامل ہوتے ہیں وہ مذہبی افراد کو ہی اپنا رول ماڈلز بناتے ہیں جبکہ نوجوانوں کی اکثریت شوبز، کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی ہے‘ معاشرے میں جو افراد کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نام پیدا کر لیتے ہیں تو نوجوانوںان کو اپنا رول ماڈلز بنا لیتے ہیں‘ ایجوکیشن، صحافت، شوبز، کھلا ڑی، دانشور، سیاستدان، مذہبی رہنما سمیت کسی بھی شعبے میں جو افراد مشہور ہوجاتے ہیں تو ان کے چاہنے والے ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیںاور معاشرے میں ان کے کردار کو پرکھا جاتا ہے‘ کسی بھی شعبے میں مشہور ہونے والے افرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے کردار کو مثالی بنائیں تاکہ ان کے چاہنے والے اپنے کردار کو اس ڈھنگ میں ترتیب دے پائیں‘ ہمارے ملک میں زیادہ تر افراد علما کرام سے متاثر ہیں اور ان کو اپنا رول ماڈلز سمجھتے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اسی لیے علما کرام کے چاہنے والے بھی تقسیم در تقسیم نظر آتے ہیں اس کے برعکس جہاں تک دانشوروںکا تعلق ہے، ان کا دائرہ اثر جامعات اور کالجز تک ہی محدود ہے لہٰذا ان کے چاہنے والے بھی بہت کم ہوتے ہیں‘ قومی سطح پر چند بااثر مشہور شاعر ، ادیب اور دانشور و ضرور ہیں جن میں فیض ، احمد فراز ، مولانا مودودی قابل ذکر ہیں مگر ان افراد کا بھی دائر اثر ایک خاص قسم کے افراد پر مشتمل ہے‘ مجموعی طور پر معاشرے میں علما اور دانشوروں کا کردار مثالی ہوجائے اور پورا معاشرہ اخلاقیات کی بہتر مثال بن جائے ایسا ممکن نہیں ہے اور اس بارے میں کچھ زیادہ پر امید بھی نہیں ہوں کیونکہ معاشرہ رول ماڈلز سے نہیں بنا کرتا بلکہ معاشرے قانون کی حکمرانی سے سنورتے اور بنتے ہیں ‘رول ماڈلز کا اثر محدود دائرے میں رہتا ہے‘ ہر ایک کا رول ماڈل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے‘ اس ہی لیے رول ماڈلز کا اثر زیادہ دیر پا نہیں ہوتا‘ مغرب میں رول ماڈلز کے 2 ہی مقبول شعبے ہیں‘ ایک اسپورٹس اور دوسرا شوبز ہیں مگر آج مغرب بھی اگر بہتر معاشرہ نظر آرہا ہے تو اس میں رول ماڈلز کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہاں قانون کی پاسداری سختی سے کرائی جا رہی ہے اس لیے معاشرے میں بہترین رویے اور اخلاقی اقدار وجہ شہرت بنے اور وہ بہترین معاشرہ تصور کیا جانے لگا‘ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے مذہب میں اخلاقیات کی کمی ہے یا عیسائیت میں کوئی ایسی بات ہے کہ وہ بہترین معاشرہ بن گیا بلکہ ان کا معاشرہ تو مذہب سے بیزار ہے جبکہ ہمارے مسلم معاشرے میں مذہب کی پابندی اور پاسداری زیادہ ہے‘یہاں معاملہ صرف قانون شکنی کا آجاتا ہے‘ وہاں قانون کی بالادستی ہے اور ہمارے ہاں طاقتور قانون سے بچ جاتا ہے‘ حکمران طبقے کی اخلاقیات، دیانتداری، ان کا معیار زندگی، وعدوں کی پاسداری، امانتداری و دیگر اخلاقی اقدار ہی معاشرے میں رول ماڈلزکو ترتیب دیتی ہیں۔ معروف مغربی اسکالر کارل مارکس نے ایک بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ’’معاشرے کی تبدیلی کے لیے انسان کے غالب تصورات، اخلاقیات اور اعتقادات کو بدلنا لازمی ہے‘‘ ہمارے ملک میں اس وقت جو افرا تفری، انتشار، نفرت اور چور بازاری کی فضا قائم ہے اس کی وجہ دھوکا دہی، ملاوٹ، کرپشن، بداخلاقی، بے حیائی، قانون شکنی ہے ‘ ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار حکمران طبقہ ہی ہے اور حکمران طبقے میں علما اور دانشور نہیں آتے اس لیے معاشرے کی اکثریت اپنا رول ماڈلز حکمران طبقے کو ہی سمجھتی ہے اس لیے علما اور دانشور معاشرے کو رول ماڈلز فراہم نہیں کر پا رہے۔سرور ظہیر غزالی نے کہا کہ اس سوال کے 2 حصے ہیں اور ظاہر ہے اس کے جواب بھی 2 ہیں‘ معاشرے کے رول ماڈلز کے حوالے سے علما اور دانشوروں کا کردار الگ الگ ہے ‘ البتہ ان کے اثرات ایک ہی ہیں‘ معاشرے کی سوچ پر کون اثرانداز ہو رہا ہے اور کیسے یہ بہت اہم اور قابل غور بات ہے۔ ایسا نہیں کہ علما کی بات معاشرے میں سنی نہیں جا رہی‘ معاشرے پر علما کی گرفت خوب ہے‘ یہ اور بات ہے کہ ہمارے پاس اچھے اور عالی مرتبت علما کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہیلیکن سرکاری سطح پر ایسے غیر جانبدار، سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل علما موجود ہیں جن پر سیاسی اور نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے علما کو فوقیت دی جا رہی ہے اسی لیے سرکاری سطح پر اس عمل سے علما کے اصلی کردار اور معاشرے میں رول ماڈلز کا مقام یقینا ’’متاثر‘‘ ہوا ہے اور ہو بھی رہا ہے جبکہ دانشوروں کے مسائل اور ہیں ان کی گرفت معاشرے پر نہ ہونے کے برابر ہے‘ پاکستانی معاشرہ تعلیم کے دہرا معیار ہونے کی وجہ سے اچھے دانشور پیدا ہی کب کر رہا ہے‘ اکا دکا دانشور معاشرے پر گرفت ہی نہیں رکھتے اور نہ رول ماڈلز بننا ان کے بس میں ہے۔