مزید خبریں

فضائل عشر ہ ذوالحجہ

اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے۔ ان میں سے ہی ایک اسلامی سال کا آخری مہینہ ذوالحجہ ہے۔ جس کا احترام شروع زمانے سے ہی چلتا آرہا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی اس ماہ کو محترم و متبرک سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس ماہ کی عظمت کی وجہ سے قتل و قتال سے باز رہتے تھے۔ یہاں تک کہ دور جاہلیت میں اس ماہ میں کسی کے سامنے کوئی اس کے والد کا قاتل بھی گزرتا تو وہ اس مہینے کی عظمت کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ قرآن کریم میں جن چار مہینوں کو اشہرم حرم قرار دیا ہے انمیں ایک ماہ ذوالحجہ ہے۔ ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ حج بھی ان ہی ایام میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس ماہ کی ابتدائی دس راتیں لیلۃ القدر کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ (مشکوٰۃ) قرآن و حدیث میں عشرۂ ذوالحجہ کی عظمت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی جفت اور طاق کی اس رات کی جب وہ رات کو چلے۔ اس آیت میں فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد نہر ہے یعنی ذوالحجہ کا پہلا عشرہ جس میں قربانی کا دن بھی شامل ہے، وتر سے مراد یوم عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ اور شفع سے مراد دسویں ذوالحجہ ہے۔ (شعب الایمان) اللہ جل شانہ کی عبادت و بندگی اور حسن عمل کے لیے عشرہ ذوالحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں یہ وہ خاص عشرہ ہے جس میں کیا جانے والا عمل اللہ رب العزت کو بے حد محبوب ہے اور اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ (معارف الحدیث) نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ عشرہ ذوالحجہ یہ تمام سال کے دنوں میں سب سے افضل ہے۔ (دار المنثور) سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت کو نیک عمل جتنا ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں محبوب ہے اتنا کسی اور دنوں میں نہیں۔ (بخاری) ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے نزدیک کوئی عمل زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کے اعتبار سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اس نیک عمل کے مقابلے میں جس کو انسان ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں کرتا ہے، عرض کیا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی افضل نہیں ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا بھی (اس سے) افضل نہیں ہے۔ سوائے اس آدمی کے کہ جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کر دے اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بہتر ہے بڑھ کر ہے) (ترمذی، سنن دارمی) راوی کہتے ہیں کہ سیدنا سعید بن جبیرؓ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہوجاتا تھا تو انتہائی جدوجہد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اس کی قدرت بھی نہیں ہوتی تھی۔ (سنن دارمی) سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں: ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں میں اپنے چراغ نہ بجھایا کرو (یعنی رات میں قیام اور قرأت کا اہتمام کرو) آپ کو ان ایام میں عبادت بہت پسند تھی اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے خادموں کو اٹھایا کرو تاکہ وہ سحری کریں اور عرفہ کے دن کا روزہ رکھیں۔ (حلیت الاولیاء)
عشرہ ذوالحجہ میں کثرت ذکر
عشرہ ذوالحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں۔(الحج 28) ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی) نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کوئی دن بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیا جائے، ذوالحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔ (مسند احمد) ایک اور حدیث میں رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو۔ (المعجم للطبرانی)
اللہ تعالیٰ نے عشرہ ذوالحجہ کو مختلف عبادتوں کے ذریعے سے خصوصیت بخشی ہے۔ اس پورے عشرے میں اسلام کے اہم ترین اعمال انجام دیے جاتے ہیں اور عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
عرفہ کا روزہامام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں حضور اقدسؐ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں امید رکھتا ہوں کہ عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کا ایک روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (مسلم) ایک روایت میں ہے کہ عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جس نے عرفہ کا روزہ رکھا اس کے پے در پے دو سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: عشرہ ذوالحجہ میں ایک دن کا روزہ رکھنا سال بھر کے روزہ رکھنے کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی) غیر حاجیوں کے لیے عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ احادیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہے۔ چنانچہ رسول اللہؐ سے عرفہ کے روزے کی بابت سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا: گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (مسلم) یوم عرفہ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ (نویں ذوالحجہ) کے دن سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں اور اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن بندوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں پھر فخر سے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟ (مسلم) سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن (نویں ذوالحجہ) اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے اور جس کے دل میں ذرا سا بھی ایمان ہوتا ہے وہ ضرور بخش دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ سے ان کے شاگرد نافعؒ نے دریافت فرمایا کہ یہ مغفرت تمام لوگوں کے لیے یا عرفات والوں کے لیے خاص ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ مغفرت تمام لوگوں کے لیے ہے۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شیطان کو کسی بھی دن اتنا ذلیل و خوار، اتنا دھتکارا ہوا اور اتنا جلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار اور سیاہ غضبناک دیکھا جاتا ہے اور یہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن رحمت کو (موسلادھار) برستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔ (شعب الایمان) شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے غنیہ میں لکھا ہے کہ جو شخص ذوالحجہ کے دس دنوں کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دس چیز مرحمت فرما کر اس کی تکریم کرتا ہے۔ 1۔ عمر میں برکت 2۔ مال میں برکت و اضافہ 3۔ اہل و عیال کی حفاظت 4۔گناہوں کا کفارہ 5۔نیکیوں میں اضافہ 6۔نزع میں آسانی 7۔ظلمت میں روشنی 8۔میزان میں وزن 9۔دوزخ کے طبقات سے نجات 10۔جنت کے درجات پر عروج۔
صحیحین میں سیدنا عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا عمرؓ عنہ سے کہا، اے امیر المؤمنین! تم ایک آیت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بناتے۔ سیدنا عمرؓ نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا: الیوم اکملت لکم دینکم الخ… عمرؓ فرمانے لگے، ہمیں اس دن اور جگہ کا بھی علم ہے، جب یہ آیت نبی اکرمؐ پر نازل ہوئی وہ جمعے کا دن تھا اور نبی اکرمؐ عرفہ میں تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ عرفات کے میدان میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ) اور ان کلمات میں جو میں نے یا مجھ سے پہلے انبیاء نے بطور دعا مانگے سب سے بہتر کلمات یہ ہیں لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی قدیر۔ اللہ تعالیٰ اس دن کی دعا کو رد نہیں فرماتا۔
بال اور ناخن نہ کاٹنا
عشرۂ ذوالحجہ کی آمد کے ساتھ سب سے پہلا حکم اس شخص کے لیے عائد ہوتا ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو کہ وہ اپنے ناخن و بال نہ کاٹے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جب کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال و ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔ (مسلم) یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لیے جو قربانی دینے والے ہوں، ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے۔ اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کر لے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں خلل نہیں آتا۔
تکبیر تشریق
عشرۂ ذوالحجہ میں تکبیر و تہلیل اور تسبیح کے ورد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی اور بطور خاص ایام تشریق میں تکبیرات تشریق کے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ نویں ذوالحجہ کی صبح کی نماز سے تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد یہ تکبیریں مردوں کے لیے بآواز بلند اور عورتوں کے لیے آہستہ ایک مرتبہ کہنا واجب ہے، نماز عیدالاضحی کو ملا لیا جائے تو کل 24 نمازیں ہوجاتی ہیں جن میں تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے یہ تکبیر مقیم، مسافر منفرد، جماعت عورت اہل شہر اور اہل دیہات سب پر واجب ہے۔(درمختار) اگر کوئی امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی کو بلند آواز سے پڑھ کر یاد دلا دینا چاہیے۔ (درمختار)
قربانی
عشرۂ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے۔ عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، اس دن صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ اضحی قربانی کو کہتے ہیں کیوں کہ بقرعید کے دن جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اس لیے اس کو عیدالاضحی کہا جاتا ہے۔ عیدالاضحی کی رات بھی نیکیوں کے کمانے اور اجر و ثواب کو حاصل کرنے کی رات ہے خلاصہ یہ کہ عشرہ ذوالحجہ بڑی ہی اہمیت اور عظمت والا عشرہ ہے اس کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں لہٰذا اس کی تعظیم اور احترام بجا لاتے ہوئے ان دنوں میں عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اسی طرح بالخصوص ان دنوں میں معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنے کا اہتمام بھی ضروری ہے کیوں کہ ان دنوں کی بے حرمتی کے ارتکاب پر سزا اور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ (روح المعانی)