مزید خبریں

غلاف کعبہ

امام نوویؒ نے سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ خانہ کعبہ پہلا گھر ہے جسے سیدنا آدمؑ نے زمین میں تعمیر کیا۔ اسی طرح امام بیہقی نے دلائل النبوہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً یہ روایت ذکر کی کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کے پاس جبرئیل امین کو بھیج کر کعبۃ اللہ کی تعمیر اور پھر اس کے طواف کا حکم دیا۔ آدمؑ نے اس حکم کی تعمیل کرلی تو ان سے کہا گیا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وّْضِعَ لِلنَّاسِ (آپ پہلے آدمی ہیں اور یہ بیت اللہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے)۔ سیدنا آدمؑ کا تعمیر کردہ بیت اللہ طوفانِ نوح تک اس زمین پر اسی جگہ موجود رہا۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ طوفانِ نوحؑ کے زمانے میں اسے اْوپر (آسمان پر) اْٹھا لیا گیا اور وہاں فرشتوں کے ذریعے وہ آباد ہوگیا۔ پھر ابراہیمؑ کے زمانے تک یہ جگہ خالی رہی اور اس مقام پر کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔ البتہ یہ جگہ زمین سے اْونچی تھی اور ایک ٹیلے کی شکل میں تھی، اس لیے بارش اور سیلاب کا پانی اس تک نہ پہنچتا تھا۔
سب سے پہلے جس نے کعبہ کو مکمل غلاف چڑھایا وہ تبع اسعد الحمیری تھے۔ آپ کا زمانہ رسول اللہؐ کی بعثت سے 700 سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ ان کو خواب میں نظر آیا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہے ہیں، لہٰذا انھوں نے چمڑے کا غلاف چڑھایا۔ پھر انھیں خواب میں دکھائی دیا کہ اور غلاف چڑھائیں تو انھوں نے یمن کے بنے ہوئے سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ امام محمد بن اسحاق کی اس روایت کی تصدیق ایڈورڈ گبن نے بھی اپنی تاریخ میں کی ہے۔ تبع کے بعد دورِجاہلیت میں بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں غلاف چڑھائے۔ کعبہ کو مختلف قسم کے کپڑوں کے غلاف چڑھائے جاتے رہے، مثلاً چمڑے کا غلاف، سرخ دھاری دار کپڑے کا غلاف۔ یمن کے کامدار کپڑے کا غلاف یہاں تک کہ ابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی نے شہر جند سے دھاری دار کپڑے کا غلاف تیار کروایا اور خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ بعدازاں دو غلاف چڑھائے جانے لگے۔ ایک ریشمی اور دوسرا قباطی۔ ناصر عباسی نے سب سے پہلے سیاہ رنگ کا غلاف خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ اس وقت سے آج تک سیاہ رنگ کا غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے۔
715ء میں مصر کے بادشاہ اسماعیل بن ناصر بن قلوون نے کعبے کے غلاف کے لیے ایک مخصوص وقف قائم کر دیا لیکن خدیوی محمد علی نے تیرھویں صدی میں یہ وقف ختم کردیا اور غلاف سرکاری وقف پر تیار ہونے لگا۔ 810ھ میں کعبہ کے دروازے کے لیے ایک الگ منقش پردہ تیار کیا گیا جسے غلافِ کعبہ کا برقع کہا جاتا تھا اور اب تک یہ پردہ بھی غلاف کے ساتھ ہی تیار کیا جاتا ہے۔ شاہ سعود بن عبدالعزیز نے غلافِ کعبہ تیار کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک الگ کارخانہ لگانے کا حکم دیا۔ 1382ھ میں شاہ فیصل شہید نے اس کارخانے کی تعمیرِنو کا حکم دیا تاکہ غلاف انتہائی مضبوط اور عمدہ تیار ہو، نیز وہ کعبہ مشرفہ کے تقدس کے شایانِ شان ہو۔ 1397ھ میں مکہ مکرمہ کے مقام اْم الجود میں اس کارخانے کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ اس میں غلاف کی تیاری کے لیے مشینی آلات کے ساتھ ساتھ دستی کشیدہ کاری کا انداز بھی قائم رکھا گیا کیونکہ فنی لحاظ سے دستی کشیدہ کاری کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے!