مزید خبریں

قربانی: دین کا جامع تصور

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ جس عظیم قربانی کو انھوں نے ادا کرکے آئندہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے ایک یاد گار بنادیا۔ پھر جس قربانی کو اللہ ربِ رحیم نے امت مسلمہ کے لیے ایک عبادت کی شکل میں طے کردیا۔ یہ قربانی کا پہلا اور آخری مرحلہ نہیں تھا۔ اللہ کے نبی ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی سراپا قربانی تھی۔ آپ نے اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے ملک، اپنے معاشرے اور اس کے رسم و رواج، اپنے عقیدے اور وقت کے نظریات تمام ہی چیزوںکی قربانی دی۔ پھر آپ علیہ السلام نے آتش نمرود میں کود کر اس بات کی وضاحت کر دی کہ دنیا میں اگر زندہ رہنا ہے تو اْس رب العالمین کے احکام پر عمل کرتے رہنا ہے جس نے زندگی عطا کی ہے۔ اور جب آ پ علیہ السلام نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اللہ ربِ رحیم کی مرضی کے مطابق ہی گزرے گی تو پھر ربِ اعلیٰ نے مزید امتحان لے ڈالا اور کہا کہ اپنے بیوی اور بچوں کو اس بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آؤ جہاں اللہ کی رحمت کے سوا بظاہر کوئی آسرا نہیں۔ یہ امتحان پورا ہی کیا تھا کہ بڑھاپے کا سہارا، مومن بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کی آزمائش سامنے لاڈالی گئی اور آپ اس میں بھی ثابت قدم ٹھہرے۔ معلوم ہوا کہ بڑی قربانیاں چھوٹی قربانیوں کے ادا کرنے کے بعد دی جاتی ہیں اور جو بھی جس قدر بڑی قربانی میں ڈالا گیا اسی قدر اس کی منزلت بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ اپنے رب اعلیٰ سے جا ملا اور بشارت حقیقت میں تبدیل ہوگئی۔
اب غور فرمائیے کہ ہم نے اب تک کس درجے کی قربانی ادا کی ہے اور قربانی کے کن مراحل سے گزرے ہیں؟ یاد رہے کہ آزمائش اور قربانی ان ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اس کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
قرآن حکیم کہتا ہے: ’’اور انھیں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا: اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ (المائدہ: 28)
یہ ہے وہ معیار جس پر پورے اترنے والوں کی قربانی قبول کی جائے گی۔ جس میں ایک بات یہ کہ وہ متقی ہوں اور دوسری یہ کہ وہ قربانی دینے میں مخلص ہوں، اور یہ اخلاص ہر نہج پر ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہم اللہ کے لیے مخلص ہوں، اپنے نبی کے لیے مخلص ہوں، اپنے دین کے لیے مخلص ہوں، اپنی امت کے لیے مخلص ہوں اور ان سب سے پہلے اپنی ذات کے لیے مخلص ہوں۔ ذات کے لیے مخلص، یعنی ہم اس بات پر یقین رکھنے والے ہوں کہ ہماری ذات کے ذریعے انجام دیا جانے والا ہر عمل اللہ کی خوشنودی کے لیے ہی انجام دیا جائے گا اور ہر کام سے رکنا اس بنا پر ہوگا کہ اللہ ہم کو رکنے کا حکم دیتا ہے۔ اس تصورکے ساتھ انجام دی جانے والی ہر قربانی ان شاء اللہ قبول ہوگی اور وہ ہمیں دنیا وآخرت میں مقبولیت کی منزلیں طے کروائے گی۔ کہا کہ ’’اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں‘‘۔ (البقرہ:269) مزیدکہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو: ’’عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ (البقرہ: 285)
پہلی خوبی: وہ عقل رکھتے ہیں، نہ صرف عقل رکھتے ہیں بلکہ عقل کا استعمال ان ہدایات کی روشنی میں کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوئیں ہیں۔
دوسری خوبی: جب ان کے پاس نصیحت آجاتی ہے تو وہ اس کو قبول کرنے سے گریز نہیں کرتے، تذبذب میں مبتلا نہیں ہوتے، کاہلی اور تساہلی سے بچتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی قربانیاں قبول کی جاتی ہیں۔
تیسری خوبی یہ کہ ان لوگوں کو یقینِ کامل ہے کہ آخر کار اس زندگی کا اختتام ہونا ہے، آخرت کا دن آنا ہے، جزا اور سزا ملنی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ تعالی سے بخششیں طلب کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ ’’اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہو سکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا اور وہ نیکوکار بھی ہے۔ اور ابراہیم علیہ السلام کے دین کا پیرو ہے جو یکسو (مسلمان) تھے اور خدا نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا تھا‘‘۔ (المائدہ:125) یہ وہ کسوٹی ہے جس پر ہر فرد اپنی ذات اور اپنی عبادات کا مکمل جائزہ لے سکتا ہے۔ اور یہی وہ کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر یہ بات بھی معلوم کی جا سکتی ہے کہ آیا ہماری عبادات قبول ہونے کے لائق ہیں یا نہیں! کہا کہ ’’زمین و آسمان کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے‘‘۔ (البقرہ: 33)
ربِ حکیم فرماتا ہے: ’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں‘‘۔ (الحج: 34)
معلوم ہوا کہ جس طرح نماز اور روزہ دوسری امتوں میں پر فرض رہے ہیں اسی طرح قربانی بھی امت مسلمہ سے قبل کی امتوں پر فرض کی جاتی رہی ہے۔ پس ہم وہی عبادات انجام دے رہے ہیں جو ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام انجام دیتے آئے ہیں۔ پھر یہ جانور جو اللہ رب العزت نے نوازے ہیں اور جن کے ذریعے کھانے اور پینے کی چیزیں میسر آئی ہیں اور جو مال ودولت کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں، کیونکہ یہ سب اللہ ربِ رحیم کی عنایت کردہ ہیں اس لیے لازم ہے کہ اس مال و دولت کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ اب اگر مال ودولت کسی اور شکل میں ہو تو بھی اس قربانی کو ادا کرنے کے لیے جانور کی قربانی کی جائے اور اْس یاد کو ہر لمحہ تازہ دم رکھا جائے کہ یہ عنایات اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ لہذا ان کا استعمال بھی اللہ کی رضا اور اس کی مرضی کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔