مزید خبریں

شیخ جنید بغدادیؒ کا حج

سفر حج کا واقعہ ہے کہ ایک رات شیخ جنید بغدادیؒ تن تنہا طواف کعبہ کے لیے حاضر ہوئے تو ایک عورت بھی خانہ خدا کا طواف کر رہی تھی۔ اچانک عورت کی پْر سوز آواز ابھری۔ وہ طواف کے ساتھ کچھ عاشقانہ اشعار بھی پڑھتی جاتی تھی۔ جنید بغدادیؒ عورت کے اس عمل کو کچھ دیر تک برداشت کرتے رہے۔ پھر جب اس خاتون کی آواز طواف میں خلل انداز ہونے لگی تو آپؒ اس کے قریب پہنچے اور نہایت پْر جلال لہجے میں فرمانے لگے:
’’اے بے خبر! تجھے اس مقدس ومحترم مقام پر اپنی ناپاک آرزوئیں بیان کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘
عورت نے معذرت کرنے کے بجائے اسی قسم کے چند اور عاشقانہ اشعار پڑھ دیے۔ جنید بغدادیؒ مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ وہ عورت آپؒ سے پوچھنے لگی:’’میں کیا کر رہی ہوں، اسے چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ خدا کا طواف کرتے ہو یا خانہ خدا کا؟‘‘
شیخ جنید بغدادیؒ نے کسی تامل کے بغیر فرمایا: ’’ہم اہل ایمان خانہ خدا کا طواف کرتے ہیں‘‘۔جنید بغدادیؒ کا جواب سن کر عورت بے قرار ہوگئی اور اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت پْرسوز لہجے میں کہا:
’’تیری ذات پاک ہے! تیری مخلوق میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو پتھر کی طرح بے حس ہیں اور پتھر کے گرد طواف کرتے تھے۔ انہیں بتا کہ تیری مرضی کیا ہے اور تو ان سے کیا چاہتا ہے؟‘‘
عورت کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سن کر جنید بغدادیؒ پر وجد کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئے۔ پھر جب ہوش آیا تو وہ عورت غائب تھی، جس نے آپؒ کو بڑے مؤثر اور منفرد انداز میں توحید کا سبق دیا تھا۔
جنید بغدادیؒ مکہ معظمہ میں قیام فرما تھے کہ عجمیوں کی ایک جماعت آئی اور آپؒ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئی۔ (عجمی دنیا کے ہر اس شخص کو کہتے ہیں، جو عرب سے تعلق نہیں رکھتا) یہ عجمی لوگ جنید بغدادیؒ سے مذہبی مسائل پر گفتگو کر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص آیا اور حلقہ توڑ کے آگے بڑھا۔ پھر وہ جنید بغدادیؒ کے قریب پہنچ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے ایک تھیلی آپؒ کے سامنے رکھ دی۔شیخ جنید بغدادیؒ نے حیرت سے تھیلی کی طرف دیکھا اور پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’اس میں پانچ سو دینار ہیں‘‘۔ اجنبی شخص نے انتہائی عقیدت مندانہ لہجے میں عرض کیا۔ ’’میری شدید خواہش ہے کہ آپ انہیں اپنے مبارک ہاتھوں سے فقرا میں تقسیم فرما دیں‘‘۔
’’یہ کام تو تم خود بھی انجام دے سکتے ہو‘‘۔ جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
’’دراصل میں نہیں جانتا کہ مستحق لوگ کون ہیں؟‘‘ اجنبی شخص نے عرض کیا۔جنید بغدادیؒ نے ایک نظر اس شخص کی طرف دیکھا پھر فرمایا: ’’اس کے علاوہ تمہارے پاس کچھ اور رقم بھی ہے؟‘‘
’’جی ہاں! خدا کا دیا بہت کچھ ہے‘‘۔ اس شخص نے اپنی آسودہ حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم اپنے موجودہ سرمائے کے علاوہ مزید دولت بھی کمانا چاہتے ہو؟‘‘ جنید بغدادیؒ نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ اس اجنبی شخص نے کہا۔ ’’یہی رسم دنیا ہے کہ انسان اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے دن رات کوششیں کرتا ہے‘‘۔
شیخ جنید بغدادیؒ نے دیناروں سے بھری تھیلی اٹھائی اور اس شخص کو لوٹاتے ہوئے فرمایا۔’’پھر تو تم ہی اس رقم کے زیادہ مستحق ہو۔ اسے واپس لے جا کر اپنے خزانے میں جمع کر دو‘‘۔