مزید خبریں

سفرِ حج اور سفرِ آخرت

(دوسرا اور آخری حصہ)
حجرِاسود کو بوسہ دو تو یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کررہے ہو۔ حجرِاسود، جیسا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ کا داہنا ہاتھ زمین پر ہے، جس سے وہ اپنے بندوں سے اس طرح مصافحہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے۔ (مسلم) یہ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ یہاں پہنچ گئے، اب اللہ سے وفاے عہد کے عہد کو پختہ تر کرلو، اور بے وفائی سے بچنے اور اس کے غضب سے ڈرتے رہنے کا عزم تازہ کرلو۔
اب خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ لو، گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ رہے ہو۔ ملتزم سے چمٹ جائو، گویا کہ اس سے قریب ہوگئے۔ درِ یار پر سر رکھ دو، جیسے کوئی خطاکار دامن پکڑتا ہے، معافی کے لیے عاجزی کرتا ہے۔ یہ وقت اور مقام الحاح و زاری، توبہ واستغفار، ندامت و شوق اور رجا و خوف کا وقت اور مقام ہے۔
رو رو کر عرض کرو کہ ’’آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جائوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائوں، کس کے قدم پکڑ لوں؟ میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کوئی نہیں۔ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا، آپ کے دَر سے نہ ہٹوں گا، جب تک آپ میری خطائوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آیندہ امن میں نہ رکھیں۔ آپ کریم ہیں، درِ کریم پر آیا ہوں، بصد عجز و نیاز آیا ہوں، بصد اْمید آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جائوں، کیا کروں‘‘۔
اے دوست! صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، تو ایک خطاکار، عاجز، ذلیل، مسکین و درماندہ غلام کی طرح جو بادشاہی محل کے صحن میں چکر لگائے۔ کبھی خلوص کا اظہار کرو شاید کہ بادشاہ نظرِ رحمت سے سرفراز کرے، کبھی اندیشے سے غم ناک ہو کہ نہ معلوم بادشاہ قبول کرے یا نہ کرے اور میرے بارے میں کیا حکم کرے۔ بار بار آئو اور جائو کہ اوّل دفعہ میں رحم نہ کرے، تو دوسری دفعہ میں کردے۔ یہ بھی خیال کرو کہ میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان بھی اسی طرح پھرنا ہوگا، ایک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں خطائیں ہوں گی۔ نہ معلوم کون سا جھک جائے، اسی اْمید و بیم میں صفا اور مروہ کے درمیان چلتے رہو۔
اے دوست! عرفات کے میدان میں قدم رکھو تو میدانِ قیامت کا منظر یاد کرو۔ یہاں، لوگوں کا ازدہام، آوازوں کا بلند ہونا،زبانوں کا اختلاف، رنگوں کا اختلاف۔ وہاں، قیامت کے دن اوّل و آخرسب جمع ہوں گے، سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سب کے چہروں کے رنگ مختلف ہوں گے، سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ یاد رکھو یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان رحمتوں کو ان صالحین کے قلوب جذب کرلیتے ہیں جو ایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑاتے ہیں، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رحمتِ الٰہی کے نزول کے لیے کوئی طریقہ اس کے برابر نہیں کہ صالحین کی ہمتیں مجتمع ہوجائیں، اور ایک وقت میں ایک زمین پر صالحین کے قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ گمان نہ کرنا کہ ان کی اْمیدیں پوری نہ ہوں گی، یہ محروم رہیں گے اور ان کی کوششیں بے کار جائیں گی۔ نہیں، ان پر وہ رحمت نازل ہوگی جو سب کو ڈھانپ لے گی۔ یہ وہ مقام ہے کہ قبولیت کی اْمید کامل ہی قبولیت کی نشانی ہے۔ بس ٹوٹ کر گریہ وزاری کرو، اور حق تعالیٰ سے مانگو:
’’اے اللہ! آپ میری بات سنتے ہیں، میرا مقام دیکھتے ہیں، میرے کھلے چھپے سب کو جانتے ہیں، میرا کوئی حال، کوئی معاملہ، کوئی ضرورت آپ سے پوشیدہ نہیں۔ میں انتہائی مصیبت زدہ اور بالکل فقیر ہوں، میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اور پناہ طلب کرتا ہوں، کانپتا ہوں اور ڈرتا ہوں، آپ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں۔ میرا سوال ایک مسکین کا سوال ہے، گڑگڑا رہا ہوں کہ سخت ذلیل گناہگار ہوں، آپ کو پکار رہا ہوں کہ ڈر کا مارا اور نقصان زدہ ہوں۔ میری گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہے، جسم آپ کے سامنے ذلیل و رسوا ہے، ناک آپ کے سامنے خاک آلود ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ایسا نہ کیجیے کہ آپ سے مانگنے کے بعد میں بدبخت رہوں، مجھ کو اپنی رحمت و شفقت سے ڈھانپ لیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے، اے سب سے بہتر عطا کرنے والے!
میرے اللہ! میں نے جانتے بوجھتے آپ کی اطاعت سے رْوگردانی کی، اور نافرمانیاں کرتا رہا۔ آپ پاک ہیں، آپ کی حجت تو میرے خلاف بہت بڑی ہے، مگر آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑا کرم ہے۔ پس اس حال میں کہ آپ کی حجت میرے خلاف ثابت ہے اور میرے پاس آپ کے سامنے کوئی حجت نہیں، میں سراسر آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے اور سب سے افضل جس سے اْمید باندھنے والا اْمید باندھے، اسلام کی حرمت اور محمدؐ کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرے سارے گناہ بخش دیجیے، اور میری ساری حاجتیں پوری کرکے مجھے اس موقف سے واپس بھیجے، جو کچھ میں نے مانگا ہے مجھے دے دیجیے اور جس چیز کی تمنا کی ہے اس میں میری توقع پوری کیجیے۔
میرے اللہ، کوئی تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے کو ملامت کرتا ہوں! الٰہی، گناہوں نے میری زبان گونگی کردی، میرے پاس اپنے عمل کا وسیلہ بھی نہیں، اْمید کے سوا اور کوئی سفارش کرنے والا نہیں! الٰہی، مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری کچھ قدر باقی نہ رکھی، نہ میرا منہ ہے کہ کوئی عذر پیش کروں، لیکن تو تمام کرم کرنے والوں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی، اگرچہ میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں، مگر تیری رحمت کے تو شایان ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی، تیری رحمت ہرچیز کو شامل ہے، اور میں بھی ایک چیز ہوں! اگرچہ میرے گناہ بہت بڑے ہیں، لیکن تیرے عفو کے مقابلے میں تو بہت چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر، اے کریم!اے اللہ! تو، تو ہے، اور میں، میں۔ میں بار بار گناہوں کی طرف پلٹتا ہوں، تو بار بار مغفرت کی طرف۔ میرے اللہ! اگر تو اپنے اطاعت کرنے والوں ہی پر رحم کرے، تو گناہگار کس کی طرف جائیں گے۔
اے دوست! کنکریاں مارنے میں نہ تو نفس کو کوئی مزہ ہے نہ عقل کو۔ اپنے نفس کو اور اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر نگوں کر دو۔ غلامی اور بندگی میں نفس و عقل کے لیے لذت بس تعمیلِ ارشاد میں ہوتی ہے۔ تعمیلِ ارشاد ہی سے دل میں اللہ کی یاد قائم ہوتی ہے۔ اقامتِ ذکر اللہ ہی کے لیے طواف ہے، سعی ہے، رمی جمار ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی بروایت عائشہؓ)
قربانی بھی اطاعت امر کا اظہار ہے ، اسی لیے باعث ِ تقرب ہے۔ اللہ سے اْمید رکھو کہ قربانی کے ہر جز کے بدلے تمھارے ہر جز کو آگ سے آزاد کردے گا۔
پس اے دوست! سنو! حج کے ہر قدم پر سفرِآخرت کو یاد کرو، اور اس سفر کے لیے زادِ راہ جمع کرو، تاکہ کل تم ربِ کعبہ کے انعامات سے سرفراز ہو، اور اس کی زیارت سے شادکام! (احیاء العلوم، جلداول سے ماخوذ: خرم مرادؒ)