مزید خبریں

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں کھیل شامل ہی نہیں

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) روزنامہ جسارت کے زیر اہتمام وفاق و صوبوں کے بجٹ 2022-23کے سلسلے میں ’’جسارت فورم‘‘ ہوا جس میں پاکستان ٹینس فیڈریشن کے نائب صدر خالد رحمانی، ڈائریکٹر اسپورٹس کے ڈی اے ایاز منشی، کرکٹ آرگنائزر و سابق پی سی بی کوچ شمیر بیابانی، پیرا ایسوسی ایشن کی رکن اور خواتین اسپورٹس آرگنائزر عشرت زہرہ، کے ڈی اے اسپورٹس کوآرڈینٹر محمد نسیم ، سابق کرکٹر اور سماجی رہنما حاجی یاسین، فٹبال کلب کے صدر اور آرگنائزر رئیس خان نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے شہروں سے تعلق رکھنے والے اسپورٹس کی شخصیات نے بھی وڈیو اور پیغامات کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ جسارت فورم کی میزبانی سینئر رپورٹر اور انچارج اسپورٹس صفحہ سید وزیر علی قادری نے کی۔ ابتدائی کلمات میں انہوں نے کہا کہ روزنامہ جسارت نصف صدی سے زاید صحافتی خدمات پیش کررہا ہے اور ریاست کے چوتھے ستون کو سنبھالا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں مسائل کو اجاگر کرکے اس کے سدباب کے لیے تجاویز لے کر ارباب اختیار تک پہنچانے کے لیے گاہے بگاہے جسارت فورم کا انعقاد کرتا رہتا ہے جس سے قارئین کو بھی آگاہی حاصل رہتی ہے۔ فورم میں پہلے مقرر پاکستان ٹینس فیڈریشن کے نائب صدر خالد رحمانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے نجی سیکٹر کو اسپورٹس کی ترقی کے لیے آگے آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے صنعت کے شعبے میں بھی بہتری آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کیونکہ پاکستان میں کھیلوں کے سامان کی صنعتوں کا جال بچھانے میں ناکام رہے اسی لیے کھیلوں اور کھلاڑیوں پر بھی اس کے اثرات پڑے۔ اب اگر دیکھا جائے جو سینتھیتک ہم بچھانے جارہے ہیں وہ 35لاکھ کی امپورٹ ہورہی ہے یہی پڑوسی ملک بھارت اپنے ہاں بنا رہا ہے اور اس سے ہم 18لاکھ میں خرید سکتے ہیں۔ ٹینس کا ریکٹ 48ہزار اور اسکواش کا ریکٹ 40ہزار میں کوئی کھلاڑی کہاں سے خرید سکتا ہے۔ یہی اگر پاکستان میں بنے تو سستا ملے گا۔ بجٹ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2022-23 کے وفاق کے بجٹ میں 3472ملین کھیلوں کی ترقی کے لیے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال 2021-22 میں 3734 ارب روپے تھے۔ اس مرتبہ 12 جاری اور 7 نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے بھی اسی بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی جس کا عدالت میں خورد برد کا کیس چل رہا ہے اس کے لیے 400ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 3 کروڑ کی آبادی والے شہر جو منی پاکستان اور قائد اعظم کی جائے ہے اس کراچی کے لیے بھی اس قسم کے پروجیکٹ بنانے کا اعلان ہی نہیں اس کو مکمل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کراچی اسپورٹس سٹی ابھی کاغذوں میں بھی موجود نہیں۔ بجٹ میں 200 ملین نیشنل گیمز کے لیے رکھے گئے ہیں۔ جو کوئٹہ میں شیڈول ہیں لیکن ملتوی ہی ہوتے جارہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سندھ کے اسپورٹس بجٹ میں 68 فیصد اضافہ ہوا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ گزشتہ سال 1.069 ارب تھا اس سال بڑھ کر 1.802 ارب روپے تک کردیا گیا ہے۔ سندھ گیمز کے لیے 150ملین رکھے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال رکھے گئے 100ملین مقابلوں کے انعقاد نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے جو لاڑکانہ میں ہونے ہیں مگر ابھی تک اس سلسلے میں منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی۔ اس کے علاوہ سندھ کے علاقے کشمور کے لیے 50ملین روپے آئی پی سی کے نئے وزیر احسان اللہ نزاری نے رکھوائے ہیں کہ ان کا تعلق وہاں سے ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو سمیٹھتے ہوئے کہا کہ یہ تو طے ہوگیا کہ حکومت چاہے وفاق ہو یا صوبائی کھیلوں کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کرپارہی۔ اگر حکومت پر انحصار کیا جائے تو جو کچھ دنیا میں تھوڑا بہت مقام بن رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔ ہمیں ناکامی کا ہی سامنا رہے گا۔ کوئی ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی سیکٹر آگے آئے اور کھیلوں کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جیسے کامرس فیڈریشن ہے، کراچی کامرس ایسوسی ایشن ہے۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟، فیڈریشن جس کا آفس کراچی میں ہے فیڈریشن ہائوس کے نام سے انہوں نے ایک اسپورٹس کمیٹی بنائی ہوئی ہے جس میں چند افراد کو لیا ہوا ہے جس کا کام اسپورٹس کرانا ہے لیکن ان کی زیرو ا ایکٹیوٹی ہے۔ فورم میں شریک دوسرے مقرر ایاز منشی، ڈائریکٹر اسپورٹس کے ڈی ا ے کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومت سندھ نے بجٹ میں کھیلوں کے لیے رقم یا فنڈ مختص تو کیا ہے مگر کھیلوں اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود وترقی اور فروغ کے لیے جتنا فنڈ ہونا چاہیے وہ نہیں رکھا گیا۔ تیسرے مقرر کے ڈی اے اسپورٹس کوآرڈینیٹر محمد نسیم کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے جو بجٹ رکھا ہے اس سے کھلاڑیوں کو کیا فائدہ ملے گا اس سے تو ادارے بھی مضبوط نہیں ہوپائیں گے۔ اس کی وجہ سے کھیلوں کی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ سابق کرکٹر اور سماجی رہمنا حاجی یاسین کا فورم میں اظہار خیال کرتے ہویے کہنا تھا کہ اگر ہم اسپورٹس کو بنیادی طور پر مضبوط نہیں کریں گے تو کھلاڑی اور ادارے کیسے دنیا میں اپنا مقام بنا پائیں گے۔بجٹ میں نوجوانوں کے لیے کھیل کے شعبے میں جو رقم مختص کی جاتی ہے وہ آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں تو خاک ترقی ہوگی۔ اولمپکس، ایشیا کپ، سیف گیمز، بین الاقوامی مختلف کھیلوں کے مقابلوں اور کامن ویلتھ گیمز میں کارکردگی صفر ہی رہے گی۔ جب کھانے کو کچھ نہیں ملے گا اور گھر میں اخراجات پورے نہیں ہونگے تو کھلاڑی کس طرح محنت اور لگن سے ملک کے لیے کھیلے گا۔ وفاق اور صوبائی حکومت کے رویوں سے نالاں سابق پی سی بی کوچ اور کرکٹ آرگنائزر شبیر بیابانی کا کہنا تھا کہ کراچی کو تو نظر لگ گئی۔ اب ظہیر عباس، جاوید میانداد، اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان جیسے سپوت پیدا ہونا مشکل ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو بجٹ نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، 75سال سے پاکستان میں حکومتوں نے کھیل اور کھلاڑیوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ہے جس کو ختم کیے بغیر ہم دنیا میں کھیلوں کے حوالے سے کوئی مقام حاصل نہیں کرسکتے ۔ یہ ضرور ہے کہ ایک دور تھا کرکٹ، ہاکی ، اسکواش میں ہمارا نام تھا، طوطی بولتی تھی لیکن اب تو چپ لگ گئی۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ کے سی سی اے کے سابق صدور اور سیکرٹریز جن میں عیسیٰ جعفر، منیر حسین، پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری اور ضمیر صاحب کے علاوہ اچھے بھائی جیسے منتظم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ صرف مال کی بنیاد پر زبردستی فیڈریشنز، ایسوسی ایشنز پر قابض ہونے سے ملک میں کھیل اور کھلاڑی کی ترقی ناممکن ہے۔ خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے پیرا کھیل کی روح رواں عشرت زہرہ نے بلاتکلف اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا اور فورم میں موجود کھیلوں سے وابستہ شخصیات کے مقابلے میں واحد خاتون ہونے کے باوجود خواتین کھلاڑیوں کا مقدمہ لڑا اور کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف تو بجٹ میں کھیلوں کے حوالے سے مختص رقم ناکافی ہے تو دوسری طرف خواتین کے لیے مردوں کے مقابلے میں صرف ایک فیصد فنڈ میسر ہے تو پھر یہ کہنا کہ مرد و خواتین کے ساتھ یکساں سلوک ہورہا ہے مذاق ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگر ملک کے مستقبل کے معماروں کے لیے خواتین کے کردار کو مثبت بنانا ہے تو ان کی اس عمر میں جو کھیل کود اور تفریح کے مواقع پیدا کرنا ہونگے ورنہ اسی طرح فورم اور سیمینار میں نوحہ ہی پڑھا جاتا رہے گا۔ فٹبال آرگنائزر رئیس خان نے کہا کہ میں تو یہ کہوں گا کہ بجٹ تو کھیلوں کے لیے رکھا ہی نہیں جاتا بلکہ جو پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر شخصیات براجمان ہیں و ہ اپنے لوگوں کو زبردستی فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کا ممبر بنانے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں جس سے جعلی فیڈرشنز اور ایسوسی ایشنز کا جال بچھ گیا ہے اور ہر کھیل کی دو، دو متوازن باڈیز چل رہی ہیں۔ اب جو حکومت کی منظور نظر ہیں ان کو بجٹ مل جاتا ہے اور دیگر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی پالیسی واضح ہونے چاہیے کہ وہ پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو پابند کرے کہ ان معاملات کے اصل ذمے داروں کے خلاف ایکشن لے ۔ فورم میں ملک کے دوسرے صوبوں کے شہروں میں مقیم مختلف فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی وڈیوز اور میسجز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں ڈاکٹر روزمن خان جن کا تعلق لوئر دیر، کے پی کے سے ہے اور 2003-2018تک لوئر دیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر رہے اور موجودہ سیٹ اپ میں پی سی بی فرسٹ بورڈ ملاکنڈ ڈویژن کے ممبر بھی ہیں کا کہنا تھا کہ فنڈز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کمیٹیاں بنانی چاہییں جن کی ہر ماہ میٹنگز ہوں اور ان کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہویے فنڈز کا اجرا ان کی سفارشات پر ہو۔ ملک میں کھیل جب تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک کھلاڑیوں کو کٹس اور دیگر ضروری سامان مہیا نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بہت ٹیلنٹ ہے مگر مالی مشکلات کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ پاتا اور کھلاڑی کیریئر جاری نہیں رکھ سکتا۔ اولمپک باکسنگ ریفری جج، سابق جیوری ممبر ایشین گیمز،ایسٹ ایشین گیمز،ایشین چمپیئن شپ،کنگز کپ سابق سیکرٹری سندھ باکسنگ ایسوسی ایشن و پاکستان باکسنگ فیڈریشن لیجنڈ اور نامور عالمی اسپورٹس اور پاکستان کی پہچان رکھنے والی جواں عزم شخصیت علی اکبر شاہ قادری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جسارت فورم کی کاوش کو سراہا اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہویے انتظامیہ کو مبارکباد پیش کی ان کا کہنا تھا کہ میں برملا کہتا ہوں کہ روزنامہ جسارت نصف صدی سے زاید عرصہ ہر مسئلے کو اجاگر کرتا آیا ہے اور اسپورٹس کے حوالے سے اس کا صفحہ جو خدمات پیش کررہا ہے وہ جہاد سے کم نہیں ۔ جسارت فورم سے اسپورٹس و اسکے صوبائی و قومی فنڈز پر اہم شخصیات کو بولنے اور رائے دینے کے لئے عملی اقتدام کیا ہے وہ میرے خیال سے پاکستان میں واحد روزنامہ’’جسارت‘‘ ہے جس نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی جسار ت کی ہے۔مجھے بے حد افسوس ہے کہ خرابی صحت کی وجہ سے فورم میں شریک نہیں ہوسکا۔ بہت کوشش کی مگر صحت نے ساتھ نہیں دیا۔چند باتیں میں ضرور بیان کرنا چاہوں گا۔ اولمپک ڈے بنانے کی بات ہو یا کوئی اور موقع پاکستان میں اولمپک کھیلوں کو تباہ کرنے والے گروہ کا احتساب ہونا بہت ضروری ہے۔افسوس کی بات ہے کہ نہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کھیل اور نہ سینیٹ کی کمیٹی انکا احتساب کرنے میں مکمل ناکام رہی۔جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے تو کھل کر اور نام لیکر قومی اسمبلی میں تقریر کی مگر کچھ نہ ہوسکا۔اقبال محمد علی دل میں پاکستان کے اولمپک ایسوسی ایشن کو آزاد کرانے کی حسرت لیکر دارفانی سے کوچ کرگئے۔کئی وزیر آئے اور گئے۔ وفاق کا اسپورٹس بجٹ انجوائے ، ٹورزاور سندھ کا 80 فیصد اسپورٹس بجٹ کمیشن کے ذریعے ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے اور یہی کچھ رواں بجٹ میں بھی ہوگا۔اس بدعنوانی و خوردبرد کی ابتدا کامن ویلتھ گیمز اور سندھ میں سندھ گیمز اور علاقائی ٹورنا منٹس سے ہوجائیگی۔ پاکستان میں ایک بھی وزیریا سیکرٹری یا نچلے درجے کا گریڈ 19تک کے افسران کو اسپورٹس کی ابجد سے واقفیت نہیں اور نہ ہی انکا کوئی کھیلوں کا قومی یا انٹرنیشنل ماضی ہے۔ اگر آپ پاکستان کے زندہ اولمپک و انٹرنیشنل کھلاڑیوں ریفری ججز کی بات کریں تو انکی بمشکل تعداد 200 ہوگی اور انکی حالت زار دیکھیں تو ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں اولمپیئن انٹرنیشنل کھلاڑیوں و ریفری ججز کی تعداد معلوم کریں تو بمشکل 50 فیصد بنے گی جوحکومت وقت کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جعل سازی کی انتہا آپ کو قومی اور صوبائی سطح پر واضح نظر آئیگی۔اس وقت کراچی سندھ میں باکسنگ کے حوالے سے ایک مثال ایک ایسا منفرد اولمپیئن باکسر ہے جس کو پاکستان کی 1948 سے آج تک اولمپک تاریخ کا پہلا اور آخری ’’ڈسکوالیفائیڈ باکسر‘‘ کا بدنما اعزاز حاصل ہے اور ہماری سندھ اسپورٹس کی ہر سیاسی،سرکاری و کھیلوں کے ذمے دار اس کو ہیرو بناکر ہر تقریب میں اس کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں جبکہ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ یہ شخص پاکستان اسپورٹس کا بدنما داغ ہے۔ بیرون شہر ہونے کی وجہ سے پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری اکرم خان نے وائس میسج کے ذریعے فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ نہ ہی پاکستان اسپورٹس بورڈ اور نہ ہی دیگر شعبوں میں میرٹ پر افراد کی تعیناتی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ فورم میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے سر سید یونیورسٹی آف انجینرئنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اسپورٹس ڈائریکٹر اور سابق ہاکی کھلاڑی مبشر مختار کا کہنا تھا کہ اسپورٹس میں فنڈنگ کی ضرورت ہے ترقی بھی جب ہی ممکن ہے۔ گرائونڈز بنانے کے لیے فنڈز دیے جاتے ہیں مگر جو اس کو آباد کرینگے اس کا بھی تو خیال رکھیں۔ مسجد بنادیں نمازی نہ ہوں تو کیا فائدہ، اسپورٹس کا بجٹ 90 کی دہائی سے پہلے بہت ہوتا تھا۔ اب تو 15سے 20سال ہوگئے تمام بجٹ ختم کردیے گئے، پی ایس ایل یا ٹیپ بال میں سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ بجٹ میں کھیلوں کی ترقی کے لیے حصہ رکھیں جس سے کھلاڑی بھی مستفید ہوں۔ اس کے سبز ہلالی پرچم کو دنیا میں وکٹری اسٹیند پر لانا خواب ہی ہوگا۔ صحافیوں کو چاہیے کہ گرائونڈز میں جاکر دیکھیں کھلاڑیوں اور منتظمین اور دیگر افراد کو کیا سہولیات فراہم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہاکی کی زبوں حالی کہ ایک وجہ بجٹ میں اس کے لیے مختص رقم کاکافی نہ ہونا ہے۔ پی ایچ ایف کے کوآرڈینیٹر اور کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری حیدر حسن کا جو وقت پر فورم میں شریک نہیں ہوپائے کہنا تھا کہ خدارا وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک کے نوجوانوں میں مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور فنڈز فراہم کریں ورنہ 22کروڑ عوام کا 60فیصد طبقہ احساس محرومی کا شکار ہوکر معاشرے کے لیے بوجھ بن جائے گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے کارپوریٹ اسپورٹس آرگنائزر فہیم بٹ کا کہنا تھا کہ ملک میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا اور ان کو کوئی اون کرنے کو تیار نہیں۔ اگر یہ ہی حکومت ان کے ساتھ سلوک روا رکھتی رہی تو ہم ہر لحاظ سے دنیا کے ہر شعبے میں ناکام رہیں گے۔ آخر میں فورم میں شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہویے جسارت ویب ٹی وی اسپورٹس نان اسٹاپ کے میزبان اور سینئر رپورٹر ، انچارج اسپورٹس صفحہ نے گفتگو کو سمیٹھتے ہویے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جسارت فورم کے ذریعے ہم ارباب اختیار و اقتدار تک کھیلوں کے منتظمین، کھلاڑیوں کا یہ احتجاج پہنچا رہے ہیں کہ کھیل اور کھلاڑی کے مستقبل سے کھیلنا بند کردیں اور فوری طور پر رواں بجٹ میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی و فلاح و بہبود کے سلسلے میں خطیر رقم مختص کی جائے۔