مزید خبریں

معاشی دبائو ،سائنس ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرتی اقدار کو بدل دیا

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) معاشی دبائو‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ نظام نے معاشرتی اقدارکو بدل دیا‘ لوگ سمجھتے ہیں سائنس پڑھ کر طالبعلم ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتا ہے جبکہ آرٹس سے صرف کلرک‘ معاشرہ فنون لطیفہ کے مضامین کی اہمیت سے ناواقف ہے‘یہ ہمارا قومی ورثہ ہے‘ آرٹس کے مضامین صنعتی ترقی، قیام امن وامان، نئے قوانین کی تیاری اور نفاذ کے لیے ناگزیر ہیں‘ والدین بچوں کو اپنی پسند کا مضمون پڑھنے دیں۔ ان خیالات کا اظہار بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری شعبہ ایجوکیشن کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود، سندھ پروفیسرز لیکچرار ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر منور عباس اور آل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں فنون لطیفہ پر مبنی مضامین کی اہمیت کیوں کم ہو رہی ہے؟‘‘ ڈاکٹر صائمہ محمودکا کہنا تھا کہ میرے خیال سے ہمارے معاشرے میںآرٹس کے مضامین کی اہمیت کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان مضامین سے ناواقفیت ہے‘ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ آرٹس کے مضامین پڑھ کر ہم کیا بن سکتے ہیں‘ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ سائنس کے مضامین پڑھنے والا طالب علم عقل مند اور لائق ہوتا ہے اور جو بچہ پڑھنے میں مناسب گریڈ نہیں لیتا وہ مستقبل میں آرٹس ہی پڑھتا ہے‘ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس پڑھ کر طالب علم ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور اہل علم بن سکتے ہیں، مگر آرٹس کے مضامین پڑھ کر صرف کلرک ہی بن سکتے ہیں‘ ہم لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آرٹس کے مضامین پڑھنے کے بعد ہم کیا کرسکتے ہیں اور ان مضامین کا کوئی Scope ہے بھی یا نہیں۔ آرٹس کے مضامین کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے لوگوں میں یہ شعور اْجاگر کرنا ہوگا کہ آرٹس کے مضامین پڑھنے والے طلبہ بھی لائق اور قابل ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی دنیا میں اچھا مقام حاصل کرسکتے ہیں‘ دنیا میں جتنے بڑے ہیروز اور لیڈرز گزرے ہیں ان سب نے سائنس نہیں پڑھی تھی‘ آرٹس کے مضامین پڑھنے سے انڈسٹری میں جدت لا کر ملکی ترقی کے لیے راستے کھولے جاسکتے ہیں اور دنیا کو اور بہتر بنا سکتے ہیں‘ یہ مضامین ہماری ثقافت کا اہم ورثہ ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے احساسات کو گہرائی سے محسوس کرکے اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے نئے خیالات کی مدد سے جدت پیدا کرسکتے ہیں۔ پروفیسر منور عباس کا کہنا تھا کہ معاشرے سے آرٹس کے مضامین کی اہمیت کم ہونے کی پہلی وجہ خود معاشرہ ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے معاشرے نے ہاکی کے مقابلے میں کرکٹ ہی کو کامیاب کھیل بنا دیا ہے‘ اس بات کا اندازہ ہم یہاں سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بچہ ابھی دنیا میں پہلی سانس ہی لیتا ہے تو والدین کی اکثریت کے دل میں اس کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان وغیرہ بنانے کا خیال جوبن پر پہنچ چکا ہوتا ہے‘ اگر اس مسئلے پر غور کیا جائے تو یہ مسئلہ نفسیاتی بھی معلوم ہوتا ہے‘ ہم نفسیاتی طور پر اپنے خیالات کو اس مقام پر پہنچا چکے ہیں جس میں آرٹس کے مضامین کی کوئی اہمیت نہیں‘ معاشرے کی غالب اکثریت نے یہ تصور بنا لیا ہے کہ آرٹس کے مضامین صرف کم ذہین بچوں کے لیے ہوتے ہیں‘ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے‘ والدین کی اکثریت یہ سوچ کر بچوں کو آرٹس کے مضامین لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیوں کہ ان کے دلوں میں یہ خوف ہوتا ہے کہ آرٹس پڑھنے والوں کو نوکری کے حصول میں دشواری پیش آتی ہے‘ ان کو کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی وغیرہ‘ ہمیں اپنے معاشرے پر یہ بات باور کرانی ہوگی کہ جس طرح سائنسی مضامین کی اہمیت ہے بالکل اسی طرح سے آرٹس کے مضامین کی بھی اہمیت ہے‘ معاشرے میں جس طرح سائنس کے مضامین کے حامل ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ اہم ہیں اسی طرح سے آرٹس کے مضامین کے حامل ماہرِ قانون، استاد، ماہرِ معیشت، صحافی، بینکار، صنعتکار، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، آرٹسٹ، میوزیشن، سیاست دان وغیرہ بھی اہم ہیں‘ اس لیے سائنس اور آرٹس دونوں کی اہمیت تقریباً برابر ہے‘ میں آپ کے اس سوال کے جواب میں ان والدین کی بھی یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف سائنس پڑھنے والوں کو اچھی نوکری ملتی ہے اورآرٹس پڑھنے والے اس سے محروم رہتے ہیں۔ جس کسی نے سائنس کے مضمون ریاضی کی سند حاصل کی ہے اور دوسرے نے آرٹس کے مضمون اردو کی سند حاصل کی ہے دونوں کی تعلیم کو برابر حیثیت دی جائے گی‘ دونوں کو ملازمت کے برابر مواقع میسرآسکتے ہیں‘ دونوں کو مساوی گریڈ کی نوکری بھی مل سکتی ہے‘ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ سی ایس ایس، پی سی ایس سمیت دیگر مقابلے کے امتحانات میں بھی سائنس کے مقابلے میں آرٹس کے مضامین کے امیدوار زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔آخر میں والدین اور اساتذہ کرام کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ طالبِ علموں کو اپنی مرضی سے مضامین کا انتخاب کرنے دیجیے‘ رہنمائی ضرور کیجیے مگران کے ذہنوں میں یہ سوچ پیدا مت کیجیے کہ سائنس اہم ہے اور آرٹس نہیں جبکہ جو بچہ سائنس لینا چاہتا ہے اسے سائنس کے مضامین لینے دیجیے جو آرٹس کے مضامین لینا چاہے اس کی حوصلہ شکنی مت کیجیے۔ حیدر علی کا کہنا تھا کہ معاشی و اقتصادی دباؤ اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ہوشربا طوفان کی وجہ سے معاشرے کی اقدار مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہیں‘رہی سہی کسر سرمایہ دارانہ نظام نے پوری کر دی ہے‘تعلیمی نظام کو بہترین انسان کے بجائے کامیاب افراد کی تیاری کے لیے استوار کیا گیا ہے بلکہ کامیابی کا معیار مضمون کی مہارت سمجھ لیا گیا ہے جب پورے معاشرے میںسماجی مہارت کے بجائے صرف ٹیکنیکل مہارت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جائے گا تو دوسری جانب فنون لطیفہ کی اہمیت خود بخود کم ہو جاتی ہیجبکہ فنون لطیفہ کے مضامین انسانی خوبیوں کے اجاگر کرنے میں بہت زیادہ مدد گار ہوتے ہیں‘آج جبکہ نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا دور دورہ ہے تو ایسے میں فنون لطیفہ کے مضامین بچوں کی بہترین پرورش کرسکتے ہیں۔