مزید خبریں

اتحادیوں کو اقتدار سنبھالنے سے قبل ملک کی خراب معیشت کا اندازہ نہیں تھا

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) اتحادیوں کو اقتدار سنبھالنے سے قبل ملک کی خراب معیشت کا اندازہ نہیں تھا‘ حکومتی اقدامات کی بدولت 3 ماہ کے اندر معاشی حالات میں بہتری نظر آئے گی‘ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے سے عوام زندہ درگور ہوگئے‘ مفتاح اسماعیل کی سمت درست نہیں‘ آئی ایم ایف پروگرام کی تجدید کے بعد ہی دوست ممالک تعاون کریں گے‘ ملکی آبادی میں اضافے اور قرضوں سے معیشت دبائو میں ہے۔ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما انجینئر افتخار چودھری، تجزیہ کار اعجاز احمد، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر نائب صدر سردار محمد احسان عباسی، پیپلز پارٹی ورکرز کی چیئرپرسن ناہید خان،سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین سجاد سرور، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے رہنما اسرار الحق مشوانی، پیپلز ٹریڈر سیل کے رہنما عمران شبیر عباسی، تاجر رہنما طاہر آرائیں، بزنس مین کمیونٹی کے رہنما جاوید الرحمن ترابی، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے رہنما ذوالقرنین عباسی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’شریف حکومت کی اب تک کی معاشی کارکردگی خراب کیوں ہے؟‘‘ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملکی معیشت کے لیے ہمیں اہم کامیابی ملی ہے‘ چینی بینکوں کے کنسورشیم نے 2 ارب 30 کروڑ ڈالرز بطور قرض پاکستان کو منتقل کر دیے ہیں‘ ملکی معیشت بحرانی کیفیت کا شکار ہے ‘ ہم جلد اس پر قابو پا کر عوام کو ریلیف دیں گے۔ افتخار چودھری نے کہا کہ وہ اس حکومت کو تسلیم ہی نہیںکرتے کیونکہ یہ بیرونی مداخلت کے نتیجے میں آئی ہے انہیں اس کا جواب دینا ہوگا جبکہ ان سے ملکی معیشت بھی نہیںسنبھل رہی ہے۔ اعجاز احمد نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو حکومت میں آنے سے پہلے خراب معیشت کا اندازہ نہیں تھا‘ حکومت کسی کی بھی ہو‘ اسے باہر بیٹھ کر علم نہیں ہوتا کہ معیشت کس قدر خراب ہے‘ شریف حکومت نے اب تک جو کچھ بھی کیا ہے‘ اس کے اثرات آئندہ 2، 3 ماہ میںسامنے آئیں گے اور بہتری نظر آئے گی‘ آئی ایم ایف ایک عالمی حقیقت ہے جب کوئی ملک اس کے پروگرام کو لیتا ہے تو اس کو اس کی ہدایت پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے‘ عمران حکومت نے 3 بار آئی ایم ایف سے وعدہ کیا اور معاہدے پر دستخط بھی کیے مگر بعد میں مُکر گئی جس کی وجہ سے اب آئی ایم ایف کڑی شرائط کے ساتھ معاہدہ کر رہا ہے‘ آئی ایم ایف کی اہمیت بہت ہے کیونکہ جب تک یہ مطمئن نہ ہو‘ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی بینک کسی بھی ملک کو قرض نہیں دیتا اور نہ معاشی حالات درست کرنے کے لیے مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت ہمارے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تاہم حکومت کی کوشش سے اور آئی ایم ایف کے اطمینان کے بعد چین نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے قبل ہی 2 ارب ڈالر سے زاید دے دیے ہیں‘ اس وقت حکومت کے پاس اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی نہیں ہے‘ ایک ڈپٹی گورنر کو قائم مقام گورنر بنایا ہوا ہے، لہٰذا وہاں پالیسی سازی نہیں ہو رہی‘ اسی وجہ سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مفتاح اسماعیل کی کامیابی کی راہ میں اسحق دار حائل ہوں وہ کیوں چاہئیں گے کہ مفتاح کامیاب ہوجائیں‘ مفتاح اسماعیل شہباز شریف اور اسحاق ڈار نواز شریف کے قریب ہیں‘ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے بہر حال جلد حکومت معیشت بحال کرلے گی۔محمد احسان عباسی نے کہا کہ معیشت کی خرابی کے ذمہ دار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیں جن کی سمت درست نہیں ہے لیکن بجٹ میں تاجروں پر جو فکس ٹیکس لگایا گیا ہے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس کے مثبت اثرات جلد سامنے آئیں گے۔ ناہید خان نے کہا کہ ملکی معیشت ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہے جس کی وجہ بیرونی قرض ہے‘ ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ سے باہر نکلے گی تو درست ہوگی‘ کوئی بھی حکومت آجائے اسے فیصلہ لینا ہوگا کہ قرضوں پر کم انحصار کیا جائے اور ملکی وسائل استعمال کرکے معیشت درست کی جائے۔ سجاد سرور نے کہا کہ ان دنوں ہمارا ملک پھر سے ایک گرداب میں ہے ‘ہمارے 4 بڑے مسائل ہیں ‘ہم نے ریاست اور شہری کا رشتہ استوار نہیں کیا‘ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے تعلیم کو اولین قومی ترجیح قرار نہیں دیا‘ کوئی حکومت 2 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھنے والی آبادی کے سیلاب کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتی‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود کفالت پر توجہ نہیں دی‘ اخراجات اور آمدنی میں کوئی مناسبت نہیں اور درآمدات اور برآمدات میں خلیج حائل ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ بزنس ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ حکومت نے اس شعبے کو نظر انداز کیا ہے اس لیے مسائل بڑھ گئے ہیں اور اتحادی حکومت کی کوششوں کے عملی نتائج اب تک سامنے نہیں آسکے ہیں‘ مہنگائی میں دن دونا رات چوگنا اضافہ جاری ہے‘ عالمی منڈی میں پیٹرول کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچے ہیں ان حالات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بحالی اور بہتری کے عمل کے آغاز کا تمام تر انحصار گزشتہ حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تجدید پر ہے جس کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر کی نئی قسط جاری کی جائے گی۔ اس کے بعد ہی دوست ملکوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کی راہیں کھل سکیں گی اور معیشت کی بحالی کا عمل شروع ہو پائے گا‘ آئی ایم ایف کے پروگرام کی تجدید کے لیے موجودہ حکومت اور مالیاتی ادارے کے درمیان معاہدے پر جس بنا پر اب تک اتفاق نہیں ہوسکا، وہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی انتہائی سخت شرائط کا من و عن تسلیم کیا جانا تھا جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس وغیرہ پر دی جانے والی سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کیا جانا ہے‘ شہباز حکومت نے اپنی سی ہر ممکن کوشش کی کہ مالیاتی ادارے کو ان شرائط میں نرمی پر آمادہ کرلیا جائے لیکن یہ کوششیں ناکام رہیں۔عمران شبیر عباسی نے کہا کہ وزیر خزانہ کی یہ وضاحت اطمینان بخش ہے کہ تنخواہوں کے معاملے سے آئی ایم ایف کا تعلق نہیں‘ امیروں پر ٹیکس لگے گا‘ غریبوں کو ریلیف دیںگے ‘ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری محدود کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں جو یقیناً وقت کی ضرورت ہے۔ طاہر آرائیں نے کہا کہ سعودی سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد اور وزیر اعظم سے ملاقات بھی اچھی علامت ہے ‘سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر اس شرط کے ساتھ آمادگی ظاہر کی تھی کہ سیاسی اور بیوروکریٹک مداخلت نہیں ہوگی‘ سعودی حکومت کو اس حوالے سے کھلی پیشکش کی جانی چاہیے‘ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کے دورہ ایران میں دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق سے معاشی بحالی کے راستے کھل سکتے ہیں۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کے ’آفٹر شاکس‘ اور شتر بے مہار مہنگائی سے زندہ درگور ہوتے عوام کی چیخیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی ہیںاور اب اعلیٰ حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ذوالقرنین عباسی نے کہا کہ شہباز حکومت کہہ رہی ہے کہ سابق حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک کا بدترین معاہدہ کیا ہے‘ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کے متاثر ہونے کا احساس ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ سابق حکومت اور آئی ایم ایف کی ڈیل کے باعث موجودہ حکومت کے پاس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔